کیا مودی کے دورہ یوکرین سے روس پر انڈین موقف بدلے گا؟

اس دورے، جس میں مودی صدر ولودی میر زیلنسکی سے ملاقات کریں گے، کے وقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہ دورہ یوکرین کے قومی پرچم کے دن کے موقعے پر کیا جا رہا ہے، جو سوویت یونین سے اس کی آزادی کی یاد دلاتا ہے۔

یوکرین کے صدر ولاد یمیر زیلنسکی 23 اگست، 2024 کو اپنی ملاقات کے دوران مارینسکی پیلس کے داخلی دروازے پر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو راستہ دکھاتے ہوئے (رومن پیلیپی/ اے ایف پی)

انڈیا نے اس کے اتحادی روس کی جانب سے یوکرین پر چڑھائی کے بعد سے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا اور مغربی ممالک کے دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے روس کی جنگ کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے، جبکہ ساتھ ہی ساتھ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھی ہیں۔

توقع کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے دورہ کیئف کے دوران بھی یہ نازک توازن برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ 30 سال قبل دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد کسی انڈین وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہے۔

دورہ یورپ کے پہلے مرحلے میں مودی جمعرات کو پولینڈ میں تھے اور جمعے کو کیئف پہنچے۔

اس دورے، جس میں مودی صدر ولودی میر زیلنسکی سے ملاقات کریں گے، کے وقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہ دورہ یوکرین کے قومی پرچم کے دن کے موقعے پر کیا جا رہا ہے، جو سوویت یونین سے اس کی آزادی کی یاد دلاتا ہے۔

یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب ایک ماہ قبل ماسکو میں انڈین وزیر اعظم نے ولادی میر پوتن سے ملاقات کی، جسے مغربی ممالک سمیت زیلنسکی نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انہوں نے ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما کے دنیا کے سب سے خونریز مجرم کے ساتھ ایسے دن گلے ملنے کو ایک بہت بڑی مایوسی اور امن کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا‘ قرار دیا تھا۔

جس دن مودی اور پوتن کی ملاقات ہو رہی تھی، اسی دن روسی افواج نے یوکرین میں میزائل حملے کیے جس میں مبینہ طور پر کم از کم 42 افراد مارے گئے۔

سٹریٹجک مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کے دورہ کیئف کا مقصد مغربی شراکت داروں کو تسلی دینے کے لیے ہے جو ان کے ماسکو کے دورے سے ناراض ہیں۔

اور اگرچہ یہ دورہ بنیادی طور پر دکھاوے  کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن اس دورے میں نئی دہلی کو یوکرین کے ساتھ دفاعی تعاون مضبوط کرنے کا موقع مل سکتا ہے، جو کہ اسے جنگی جہازوں کے لیے سپیئر پارٹس فراہم کررہا ہے۔

چیٹم ہاؤس میں جنوبی ایشیا کے لیے سینیئر ریسرچ فیلو چیتگج باجپائی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’دورہ ماسکو کے نتائج کے بعد مودی کا دورہ بنیادی طور پر مغرب کو یقین دلانے کے لیے ہے، جو اس وقت ہوا جب نیٹو سربراہ اجلاس سے قبل یوکرین میں فضائی حملے کیے گئے تھے۔

’یہ انڈیا کی جانب سے مغرب اور خاص طور پر یورپ کو سٹریٹجک اشارے کا ایک طریقہ ہے جو انڈیا پر زیادہ تنقید کرتا رہا ہے۔‘

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ڈپلومیسی اور تخفیف اسلحہ کے پروفیسر سورن سنگھ کا کہنا ہے کہ مسٹر مودی کا دورہ کیئف ماسکو سمٹ کے بعد کا کوئی غیر متوقع اقدام نہیں ہے – بلکہ انڈیا کا اپنی سٹریٹجک خودمختاری دکھانے کا ایک طریقہ ہے۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’مغربی دباؤ اہم ہے لیکن یہ فیصلہ بنیادی طور پر انڈیا کی خارجہ پالیسی کو سٹریٹجک خودمختاری کے محور پر استوار کرنے کی وجہ سے لیا گیا ہے۔ اور یہ ماسکو کو بھی یہ دکھانے کے لیے کہ نئی دہلی پوتن کے ساتھ ملے گی اور ہم یوکرین کے ساتھ بھی رابطہ رکھیں گے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مودی کے یوکرین کے قومی دن کے موقعے پر اس کے دورے کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ ’انڈیا یوکرین کی آزادی کا حامی ہے۔‘

کسی بھی صورت میں، روس کے خلاف انڈیا کو اپنی طرف راغب کرنا زیلنسکی کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ ماضی میں نئی دہلی کے ساتھ یوکرین کی قیادت کے محدود تعلقات سے اس کی پوزیشن میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے، جو بڑی حد تک ذاتی مفادات کی وجہ سے ہے۔

انڈیا ہتھیاروں اور توانائی کی فراہمی کے لیے روس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، حتیٰ کہ مغرب کی جانب سے نئی دہلی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ روسی خام تیل کی بڑی مقدار خرید کر بالواسطہ طور پر ماسکو کی جنگ کی مالی اعانت کرتا ہے۔ 2021 کے بعد سے ان خریداریوں میں تقریبا 20 گنا اضافہ ہوا ہے۔

اپنے دورے پر روانگی سے قبل مودی نے کہا تھا کہ وہ جنگ کے پرامن حل کے بارے میں اپنے ’خیالات کا تبادلہ‘ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’ایک دوست اور شراکت دار کی حیثیت سے ہم خطے میں امن و استحکام کی جلد واپسی کی امید کرتے ہیں۔‘

دہلی نے اس سے قبل تنازع کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے معاونت پر آمادگی ظاہر کی تھی، لیکن حریف چین کے برعکس اس نے کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے، جس نے 12 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیتگج باجپائی نے کہا کہ ’مجھے انڈیا کی ثالث کا کردار ادا کرنے کی اہلیت پر شک ہے کیونکہ روس میں اس کے ذاتی مفادات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس کے پاس کسی ثالث یا امن ساز کا کردار ادا کرنے کے لیے وسائل اور محرک ہے، خاص طور پر روس کے ساتھ اس کے دیرینہ اور قریبی تعلقات کو دیکھتے ہوئے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ سے زیادہ انڈیا ماسکو اور کیئف کے درمیان پیغامات پہنچانے کے لیے ایک ذریعے کے طور پر کام کر سکتا ہے اور ممکنہ طور پر مغرب کو روس کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے بیک چینل فراہم کر سکتا ہے۔

برطانیہ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے سینیئر فیلو راہول رائے چوہدری اس بات سے متفق نظر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’انڈیا کی جانب سے ثالثی میں کردار ادا کرنے کی توقع بہت مبالغہ آمیز ہے۔ میرے خیال میں انڈیا ان تمام مختلف پارٹیوں کے درمیان توازن قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ اس کام کو نسبتاً کامیابی کے ساتھ انجام دینے میں کامیاب رہا ہے۔ لیکن یہ حد ہے۔ ثالثی کا مطلب ہے اس سے کہیں آگے جانا۔‘

پروفیسر سنگھ نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انڈیا چین کے امن منصوبے کی طرح کوئی بڑی تجویز پیش کرنے میں محتاط ہے جو ناکام ہو سکتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ انڈیا بہت محتاط، بہت سادہ، بہت اچھا رویہ اختیار کر رہا ہے۔ یہ ابھی تک کوئی بڑی تجویز یا کام کرنے کا کوئی دعویٰ نہیں کر رہا۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ جب مودی کیئف میں تقریر کریں گے تو الفاظ زیادہ واضح ہوں گے۔‘

چوہدری نے کہا کہ مغرب مودی کے زیلنسکی کے دورے کو اس کے دباؤ اور روس کے دورے پر تنقید کی وجہ سے ہوئی ایک فتح کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’روس یہ سمجھے گا کہ یہ صرف دکھانے کے لیے ہے اور اس میں کوئی وزن نہیں۔ اور انڈیا کی پالیسی میں، یوکرین کے اس دورے کے باوجود ماسکو کے ساتھ اس کے تعلقات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔‘

اس کے ساتھ ہی انہوں نے نشاندہی کی کہ کیئف کے ساتھ دفاعی تجارت کو مضبوط بنانے سے انڈیا کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ انڈین بحریہ کے متعدد جہاز یوکرین کے انجن اور سپیئر پارٹس پر انحصار کرتے ہیں۔

باجپائی نے کہا کہ اگر ماسکو نے مودی کے دورے پر اعتراض کیا تو اس کا اظہار دیگر طریقوں سے ہوگا۔

انہوں نے کہا، ’مثال کے طور پر پوتن ماسکو اور پاکستان کے درمیان رابطے کو گہرا یا بڑھا سکتے ہیں۔ بدترین صورت حال میں روس انڈیا کے ساتھ سرحدی تنازع میں چین کے حق میں زیادہ جھک سکتا ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا