پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت نے جمعے کو ایک اور شخص کے منکی پاکس وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق کی ہے۔
خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ ڈاکٹر ارشاد روغانی نے بتایا کہ جمعرات کی صبح دبئی سے پشاور آنے والے ضلع نوشہرہ کے ایک 47 سالہ شخص میں وائرس پایا گیا۔
ڈاکٹر ارشاد کے مطابق پشاور کے ہوائی اڈے پر سکریننگ کے دوران مشتبہ مریض کو پولیس ہسپتال منتقل کرنے کے بعد نمونے حاصل کیے گئے۔
انہوں نے بتایا، ‘مریض کے نمونے پشاور کے پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری بھیجے گئے جہاں مریض میں ایم پاکس کی تصدیق ہو گئی۔’
انہوں نے بتایا کہ ایم پاکس کی قسم جاننے کے لیے مریض کے مزید نمونے نیشل انسٹی آف ہیلتھ سائنسز اسلام آباد بھیجوائے گئے ہیں، جہاں سے تفصیلی رپورٹ تین چار دنوں میں آئے گی۔
ڈاکٹر ارشاد کے مطابق مریض دبئی میں ویلڈنگ کا کام کرتا ہے اور وہاں اس کے ساتھ سات لوگ رہ رہے تھے جس میں سے ایک میں گذشتہ ہفتے ایم پاکس کے علامات پائی گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا، ‘مریض کی حالت کل سے بتدریج بہتر ہو رہی ہے اور ڈاکٹروں کی ٹیم علاج معالجے میں مصروف ہے۔’
خیبر پختونخوا میں گذشتہ ہفتے بھی خلیجی ملک سے واپس لوٹنے والے ایک شخص میں ایم پاکس وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ایم پاکس ایک متعدی بیماری ہے جو منکی پاکس نامی وائرس سے پھیلتی ہے۔
اس بیماری کے علامات میں جلد پر دھبے، بخار، سر درد، پھٹوں میں درد، دانے، بدن میں توانائی کی کمی اور کمر درد شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ بیماری ایک مریض سے دوسرے انسان میں جسمانی رابطے سے منتقل ہوتی ہے جبکہ اگر کسی جانور میں یہ وائرس موجود ہو تو اس سے بھی انسانوں میں منتقل ہوتی ہے۔
منکی پاکس وائرس پہلی مرتبہ 1958 میں ڈنمارک میں سامنے آیا تھا اور انسانوں میں اس بیماری کا پہلا کیس 1980 میں نو ماہ کے بچے میں ڈیموکریٹک ری پبلک اف کانگو میں سامنے آیا تھا۔
پاکستان میں ایم پاکس کے کیس سامنے آنے کے بعد ہوائی اڈوں پر سکریننگ ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں اور کسی بھے مشتبہ شخص کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔
نائجیریا، امریکہ، یورپ سمیت 110 ممالک میں 1970 سے اب تک ایم پاکس کے 87 ہزار سے زائد کیس سامنے آئے ہیں، جس میں سے 112 کی موت واقع ہوئی ہے۔
امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق ایم پاکس کی دو قسمیں کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو ہیں، جس میں سے کلیڈ ون زیادہ خطرناک ہے۔
اسی ادارے کے مطابق ایم پاکس کلیڈ ون کی شرح اموات بعض وبا میں 10 فیصد رہی ہے جبکہ کلیڈ ٹو بیماری کے 99 فیصد سے زائد مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔