وزیر اعظم شہباز شریف نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے منکی پاکس کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیے جانے کے بعد پاکستان میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت نگرانی کی ہدایت کی ہے۔
ایم پاکس فلو جیسی علامات اور پیپ سے بھرے زخموں کا سبب بنتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے اس بیماری کے حالیہ پھیلاؤ کو صحت عامہ کی ہنگامی صورت حال قرار دیا ہے۔
ایم پاکس وائرس کی نئی قسم کی پہلی بار کانگو میں تصدیق ہوئی جس کے بعد وائرس ہمسایہ ملکوں میں پھیلنا شروع ہو گیا۔
پاکستان نے صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک مریض میں وائرس کی تشخیص کے بعد اس بیماری کے خلاف احتیاطی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ مذکورہ مریض حال ہی میں بیرون ملک سفر کے بعد وطن واپس پہنچا تھا۔
ہفتے کو اسلام آباد میں مرض کے حوالے سے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ہوائی اڈوں پر ایم پاکس کی مؤثر سکریننگ کی ہدایت کی ہے۔
اجلاس کے بعد وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ محکمہ صحت کے حکام ہوائی اڈوں پر صورت حال کی مکمل اور کڑی نگرانی کریں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’وزیر اعظم نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے صوبائی حکومتوں، گلگت بلتستان کی حکومت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے ساتھ رابطہ بہتر بنانے کی بھی ہدایت کی۔‘
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’ایم پاکس ٹیسٹنگ کے لیے تمام ضروری سامان اور کٹس کی فراہمی کو یقینی بنائی جائے۔ میں ہر ہفتے ایم پاکس پر بریفنگ لوں گا۔‘
اجلاس میں بتایا گیا کہ اس وقت پاکستان میں مقامی سطح پر وائرس نہیں پھیل رہا۔
’منکی پاکس کے حوالے سے کووڈ جیسی صورت حال نہیں‘
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے رابطہ کار برائے صحت ڈاکٹر مختار احمد بھرتھ نے ہفتے کو کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے منکی پاکس کے حوالے سے کووڈ 19 کی طرح ابھی تک کسی ہنگامی صورت حال کا اعلان نہیں کیا۔
اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’جنوبی افریقہ میں 26 کیس سامنے آنے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے بیرون ملک سفر کرنے والوں کے حوالے سے ایڈوائزری جاری کی۔‘
ان کے مطابق: ’پاکستان میں منکی پاکس کا ایک ہی کیس آیا ہے۔ یہ کیس خیبر پختونخوا میں رپورٹ ہوا۔ آئی سولیشن ہی منکی پاکس کا بہترین علاج ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مرض 99 فیصد قابل علاج ہے۔ موت کا فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن متاثرہ شخص کو کوئی اور مرض ہونے کی صورت میں زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ وائرس مخصوص مدت کے بعد خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔‘
’پاکستان میں گذشتہ سال اب تک اب تک 11 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک مریض کی موت ہوئی لیکن اس کی وجہ بھی منکی پاس نہیں بلکہ مذکورہ شخص کے جس میں ایڈز کا وائرس موجود تھا جس نے ان کی قوت مدافعت اتنی کمزور کر دی تھی کہ وہ بچ نہیں پائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان میں سے چار کیس پنجاب میں پازیٹیو آئے۔ خیبر پختونخوا میں تین کیس مثبت آئے۔ پاکستان میں پہلا کیس 11 اپریل 2023 میں سامنے آیا۔
’بیرون ملک سے اسلام آباد آنے والے دو مسافروں کا ٹیست مثبت آیا۔ سندھ اور بلوچستان میں ایک ایک کیس سامنے آیا۔ جن لوگوں کا ٹیسٹ مثبت آیا انہوں نے زیادہ خلیجی ریاستوں کا سفر کیا تھا۔‘
ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ ’متاثرہ مریض میں چار سے 15 دن میں علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بڑی ویکسینیشن سے منع کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم کی ہدایت پر این سی او سی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں ٹیسٹنگ لیبارٹریز، کٹ اور ادویات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ یورپ سے آنے والوں کو بھی پہلی ترجیح میں رکھا جائے گا۔‘
ان کے مطابق: ’صوبوں اور ہوائی اڈوں پر حکام کو حفاظتی انتظامات مؤثر بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مسافروں کی آمد پر ہی علامات چیک کرنے کے انتظامات کا کہا گیا۔‘
اس سے قبل پاکستان کی قومی صحت کی وزارت کے ترجمان نے بھی گذشتہ روز ملک میں منکی پاکس کے ایک مشتبہ کیس کی تصدیق کی تھی۔
پاکستان میں ہائی الرٹ
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے منکی پاکس وائرس کی ایک نئی قسم کی نشاندہی کے بعد اس کے حالیہ پھیلاؤ کو بین الاقوامی تشویش کی عوامی صحت کی ہنگامی حالت قرار دیا تھا، جس کے بعد پاکستان میں بھی متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کی وزارت صحت کے ترجمان ساجد شاہ نے جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت ڈاکٹر مختار احمد بھرتھ نے ملک بھر کے تمام ایئرپورٹس کو ایم۔پاکس سے بچاؤ کے حوالے سے الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔
وزارت صحت نے وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت ڈاکٹر مختار احمد بھرتھ کے حوالے سے بیان میں کہا کہ بارڈر ہیلتھ سروسز پاکستان کے ادارے کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے، تمام ایئرپورٹس پر بھی سکریننگ کے نظام کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت نے کہا کہ عوام کو وباؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام تر ضروری اقدامات کو یقینی بنا رہے ہیں۔
’وزارت صحت اور بارڈر ہیلتھ سروسز کا عملہ ہر قسم کی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے الرٹ ہے اور وزارت صحت صورت حال کی مانیٹرنگ کو یقینی بنا رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ قومی اور صوبائی صحت عامہ کی لیبارٹریز منکی پاکس وائرس کی تصدیق کے لیے اچھی طرح سے تیار ہیں۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی منکی پاکس کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ مریضوں میں وائرس کی کس قسم (ویریئنٹ) کا پتہ چلا ہے۔
بیماری افریقہ سے شروع ہوئی
ڈبلیو ایچ او نے بدھ کو کانگو اور افریقہ کے دیگر مقامات پر منکی پاکس کی نئی قسم کے پھیلاؤ کو ایک عالمی ہنگامی صورت حال قرار دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ یہ وائرس بین الاقوامی سرحدوں کے پار بھی پھیل سکتا ہے۔
جنوری 2023 میں موجودہ وبا شروع ہونے کے بعد سے کانگو میں 27000 کیسز اور 1100 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، خصوصاً بچوں میں۔
ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ کے مطابق منکی پاکس وائرس کی وجہ سے ہونے والی یہ بیماری شدید خارش، بڑھے ہوئے لمف نوڈس (گِلٹیاں) اور بخار کا سبب بن سکتی ہے اور کچھ لوگوں کو بہت بیمار بھی کر سکتی ہے۔
پاکستان کی وزارت صحت کے مطابق اس سال اب تک افریقی ممالک میں مشتبہ منکی پاکس کے 17 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ 517 اموات کی اطلاع ملی۔
منکی پاکس کیا ہے؟
منکی پاکس، جسے ’ایم پاکس‘ بھی کہا جاتا ہے، پہلی بار سائنس دانوں نے 1958 میں اس وقت دریافت کیا، جب بندروں میں ’پاکس جیسی‘ بیماری پھیلی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تک، انسانوں میں یہ بیماری وسطی اور مغربی افریقہ کے لوگوں میں دیکھی گئی، جو متاثرہ جانوروں سے قریبی رابطے میں آئے۔
2022 میں پہلی بار اس وائرس کے جنسی تعلقات کے ذریعے پھیلنے کی تصدیق ہوئی اور اس نے دنیا بھر کے 70 سے زائد ممالک میں اس وبا کو جنم دیا، جہاں پہلے منکی پاکس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔
منکی پاکس، چیچک جیسے وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی علامات میں بخار، سردی لگنا اور جسم میں درد شامل ہیں۔ زیادہ سنگین کیسز میں انسان کے چہرے، ہاتھوں، سینے اور جنسی اعضا پر زخم پیدا ہو جاتے ہیں۔