شاہد خان پلاسٹک کے برتن بیچتے ہیں۔ سات بچوں، ضعیف ماں اور اہلیہ کی ذمہ داری ان پر ہے۔ وہ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں ایک دکان کے باہر ریڑھی لگاتے ہیں۔
ان کا کسی تاجر تنظم سے تعلق نہیں ہے۔ وہ ہڑتال کے روز بھی اپنی ریڑھی لے کر آ گئے لیکن مارکیٹ بند ہونے کی وجہ سے کوئی گاہک نہیں ہے۔
کسی سے ادھار مانگ کر بچوں کے لیے کھانے کا بندوبست کیا۔ وہ اپنی ریڑھی لگانا چاہتے ہیں تاکہ کما کر شام کو بچوں کے لیے کچھ کھانے کو لے جائیں اور انھیں کسی سے ادھار نہ مانگنا پڑے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہڑتال کامیاب ہو یا ناکام ہو مجھے فرق نہیں پڑتا۔ میرے لیے ہر وہ دن کامیاب ہے جس دن میں کما کر اپنے خاندان کو پیٹ بھر کر روٹی کھلا سکوں اور وہ دن ناکام ہے جب مجھے ادھار یا بھیک مانگ کر بچوں کا پیٹ بھرنا پڑے۔
’تاجر تنظیمیں اگر ہڑتال کرنا چاہتی ہیں تو شوق سے کریں لیکن ہڑتال کے دنوں میں مجھ جیسے ریڑھی بانوں کی آمدن کا بھی بندوبست کریں۔‘
حاجی ریاض الحسن پاکستان کی سب سے بڑی بیکری چین کے مالک اور لاہور چیمبر آف کامرس ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’فی الحال ہمیں ہڑتال کا نقصان ہوا ہے لیکن امید ہے مستقبل میں فائدہ نقصان سے زیادہ ہو گا۔ قربانی تو دینا پڑتی ہے۔
’حیرت ہے کہ حکومت ہم سے ٹیکس لینا چاہتی ہے لیکن بات نہیں کرنا چاہتی۔ یہ ہڑتال ایک دن سے تین دن اور پھر مہینے کے لیے بھی کی جا سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’ابھی نقصان کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہم روزانہ کا کروڑوں روپے ٹیکس اکٹھا کرتے ہیں۔ اگر سرکار کو پرواہ نہیں تو ہمیں بھی پرواہ نہیں۔ نقصان جتنا بھی ہو غیر منصفانہ ٹیکس قابل قبول نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب سے حکومت نے بجٹ پیش کیا ہے آئے دن تاجر تنظیمیں، فیکٹری مالکان، دکاندار اور سیاسی پارٹیاں مہنگائی، ٹیکسز اور بجلی بلوں کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
’ابھی تک ان ہڑتالوں اور احتجاجوں کے مثبت نتائج سامنے نہیں آسکے۔ بلکہ عام آدمی اور ملکی معاشی مسائل میں مزید اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’ابھی پچھلے مسئلے حل نہیں ہوئے تھے کہ ایف بی آر نے آئی ایم ایف کی شرائط پر ریٹیلرز، دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے لیے 42 شہروں کے 25 ہزار 989 بازاروں کا ایڈوانس ٹیکس ریٹ مقرر کردیا ہے، جو کہ ماہانہ ایک سو روپے سے 60 ہزار روپے ہے۔
’مارکیٹ اور لوکیشن کے حساب سے الگ الگ ٹیکس مقرر کیا گیا ہے۔ اس ٹیکس کے خلاف پورے ملک میں ایک دن کی ہڑتال کی گئی اور مزید ہڑتالوں کے لیے لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم اس ہڑتال میں شامل نہیں تھے۔ کیونکہ اس سے ملکی زرمبادلہ کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک دن کی ہڑتال سے یومیہ 50 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے واضع اعداد و شمار سرکار دے سکتی ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق تقریباً 400 سے 500 ارب روپے ماہانہ سیلز ٹیکس کی مد میں سرکار اکٹھا کرتی ہے۔
’ایک دن کی مکمل ہڑتال سے تقریباً دس سے 12 ارب روپے سیلز ٹیکس کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پیٹرولیم لیوی کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ ‘
ان کے مطابق: ’سرکار تقریباً 1200 ارب روپے کی سالانہ پیٹرولیم لیوی وصول کرتی ہے۔ ایک مہینے میں تقریباً 100 ارب اور ایک دن میں تقریباً تین ارب روپے پیٹرولیم لیوی کی مد میں نقصان ہو سکتا ہے۔‘
شیخ امجد خدمت گروپ آف یونین حفیظ سینٹر کے جنرل سیکریٹری ہیں اور بڑے پیمانے پر لیپ ٹاپ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہڑتال سے نہ صرف حکومت کو نقصان ہوا ہے بلکہ تاجر برادری کو بھی نقصان ہوا ہے۔
’میرا اپنا کاروبار بہت متاثر ہوا ہے لیکن حکومت نے ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ ہم قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے۔ دکان پر ماہانہ 60 ہزار روپے تک ٹیکس ناقابل برداشت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کا یہ کہنا نامناسب ہے کہ تاجر ٹیکس نہیں دیتے۔ صرف حفیظ سینٹر لاہور بجلی کے بل پر سالانہ 600 کروڑ کا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں آئی ٹی سامان اور موبائل کی خریدوفروخت کا تقریباً 36 فیصد حفیظ سینٹر سے منسلک ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’درآمدات، پراپرٹی ٹیکس، کرائے کا ٹیکس، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور ایڈوانس ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا ٹیکس ہم سرکار کو جمع کروا رہے ہیں۔
’ہم آئی ٹی سامان کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں لیکن حکومت نے ٹیکس لگانے سے پہلے ہم سے مشاورت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔
’سرکار ہم سے مذاکرات کر کے ٹیکس کی حکمت عملی بنائے تاکہ ملک اور تاجروں کے مزید نقصان سے بچا جا سکے۔‘
فیڈریشن پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے وائس پریذیڈینٹ زکی اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم ہڑتال کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اس سے پورے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔
’سرکار کو چاہیے کہ کاروباری طبقے کو ریلیف دے تاکہ ٹیکس اکٹھا ہو سکے۔ جولائی اور اگست میں ایف بی آر ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر سکا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’حکومتی پالیسیز کی وجہ سے تقریباً 100 فیکٹریاں فیصل آباد میں بند ہو گئی ہیں۔ اب سکریپ والے بھی فیکٹری کا سامان نہیں خرید رہے۔ بجلی اور گیس کا استعمال 50 فیصد کم ہو گیا ہے۔
’ایسی صورت حال میں اگر حکومت ہڑتال روکنے میں بھی ناکام ہو گئی ہے تو سالانہ ٹیکس اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے۔
’سرکار پہلے ہی اپنا اور کاروباری طبقے کا کافی نقصان کر چکی ہے، اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو مزید نقصان کا اندیشہ ہے۔‘