ایس ڈی برمن کی آواز سنتے ہی ذہن میں بنگال کے ساحل پر برہا کے گیت گاتے کشتی رانوں کی شبیہ اترتی ہے۔
کئی کئی دن حد نظر تک پھیلے پانی میں سفر کرنے کے بعد تھکن سے چور بنگال کے ملاح جب ساحل پر اترتے تو گھر بار کو یاد کرتے اور ’میرے ساجن ہیں اُس پار‘ جیسے گیت گا کر اپنی تنہائی کو بہلاتے۔ لیکن یہ تو عام مچھیروں اور کشتی بانوں کا تجربہ ہے جس کی کسک کوئی راجہ کیسے محسوس کر سکتا ہے؟
ستھیارتھی جیسا سادھو گلی گلی کی خاک چھان کر لوک گیت اکٹھے کرے تو سمجھ میں آتا ہے یا سلل چودھری جیسا ترقی پسند بنگال کے ساحلوں سے آسام کے باغوں تک لوک موسیقی کی دھنیں جمع کرتا پھرے تو ایک جوڑ بنتا ہے لیکن ایس ڈی برمن، تری پورہ کا راجکمار تھا۔
راجوں مہاراجوں کا موسیقی سے شغف انہونی بات نہیں لیکن وہ تو شاستریہ سنگیت کے پائیدان سے نیچے قدم دھرنا پاپ سمجھتے تھے۔
تاریخی طور پر شاستریہ سنگیت درباروں جبکہ لوک موسیقی کھیت کھلیانوں اور ساحلوں سے پھوٹتی رہی۔
یہ دو متوازی دھارے تھے جن کا سنجوگ ناممکن تھا۔ ایسے میں ایک راجکمار کی آواز زمین زادوں کی تڑپ کیسے محسوس کر سکتی ہے؟
یہ سوال صرف ہمیں نہیں ساحر لدھیانوی کو بھی حیران کرتا رہا۔ ساحر نے ایس ڈی برمن پر لکھے اپنے مضمون میں ایک لمحے کا ذکر کیا ہے جو ایس ڈی برمن کی ’کایا کلپ‘ کر گیا اور وہ کلاسیکی موسیقی سے لوک گیتوں کی طرف متوجہ ہوئے۔
ماہنامہ ’شاہکار‘ میں ساحر کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جسے احمد سلیم نے ’نثر ساحر‘ نامی کتاب میں شامل کرا ہے۔ مضمون میں اشاعت کی تاریخ درج نہیں لیکن ایسا لگتا ہے یہ پچاس کی دہائی کے بالکل آغاز میں لکھا گیا تھا۔
پہلی بار کب ایس ڈی برمن کی آواز نے ساحر کے دل پر دستک دی اور دونوں کی ملاقات کیسے ہوئی؟ آئیے ساحر کی زبانی جانتے ہیں۔
’سچن دیو برمن: ایک شہزادہ، ایک عوامی موسیقار‘ میں ساحر لکھتے ہیں ’یہ آج سے سات آٹھ برس پہلے کی بات ہے جب میں گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں زیر تعلیم تھا۔ ان ہی دنوں پہلی بار میں نے آل انڈیا ریڈیو سے سچن دیو برمن کا نام سنا۔ ان کا ایک گیت ’رے بھنورا دھیرے سے آنا بگین میں‘ ان دنوں سننے والوں میں بہت مقبول تھا اور ریڈیو کے فرمائشی پروگرام میں اکثر بجتا تھا۔ ایک دن جب میں اس گیت کو اپنی بے سری آواز میں گنگنا رہا تھا، میرے ایک دوست، جو اودے شنکر کے کلچرل سینٹر (الموڑہ) سے آئے تھے، نے مجھ سے پوچھا، ’تمہیں معلوم ہے یہ گیت کس کا گایا ہوا ہے؟
’سچن دیو برمن کا‘ میں نے جواب دیا، اور ساتھ ہی پوچھا، ’تم انہیں جانتے ہو؟‘
انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ’ذاتی طور پر تو نہیں جانتا، لیکن اتنا معلوم ہے کہ وہ ریاست تری پورہ کے راجکمار ہیں اور لوک سنگیت کے بارے میں ہندوستان کے سب سے زیادہ مستند موسیقار سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے کلچرل سینٹر میں لوگ اکثر ان کا ذکر کرتے ہیں۔‘
’رے بھنورا دھیرے سے آنا بگین میں‘ دراصل غیر فلمی گیت تھا جسے بعد میں کشور نے چلتی کا نام گاڑی میں گایا۔ بہت بعد 1973 میں دیو آنند کی فلم چھپا رستم کے لیے ایک لائیٹ موڈ کا گیت درکار تھا۔ تب اسی دھن پر دادا برمن کی موسیقی میں کھٹمل سے مخاطب ہوتے ہوئے کشور نے گایا ’دھیرے سے جانا کٹھین میں۔‘
ایسا لگتا ہے ساحر دادا برمن کے پہلے گیت سے ہی ان کی آواز اور انداز کے قائل ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساحر کے دل میں وہی سوال کلبلانے لگا کہ راجکمار اور لوک موسیقی کا سنگھم کیسے ہوا؟
ساحر نے کیسے خوبصورت انداز میں اپنی ذہنی کشمکش کو بیان کیا ہے۔
’میری خواہش تھی کہ میرا دوست مجھے اس بارے میں کچھ اور بھی بتائے مگر مزید معلومات خود انہیں بھی حاصل نہ تھیں، اس لیے بات ختم ہو گئی اور میں سوچتا رہا کہ ایک راجکمار اور لوک سنگیت کا میل کیونکر ہوا۔
’لوک سنگیت تو لوک ساہتیہ کی طرح راج محل اور راج دربار سے بہت دور کھلے میدانوں اور کشادہ دیواروں میں پیدا ہوتا ہے اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں، سنہرے کھلیانوں اور برق رفتار کارخانوں میں جوان ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’راج محل اور راج دربار میں پہنچ کر تو ادب، ادب نہیں رہ جاتا قصیدہ بن جاتا ہے اور سنگیت، سنگیت نہیں رہ جاتا، سروں کی بازیگری بن جاتا ہے۔ ایک راجکمار نے اتنی بڑی قربانی کیونکر دی ہوگی کہ وہ راج محل سے کوسوں دور بسنے والے لاکھوں کروڑوں معمولی آدمیوں کی زندگی میں گھل مل گیا ہو، اور ان کے دل کی دھڑکن سے اتنا قریب ہو گیا ہو کہ ان کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ اور ان کے سنگیت کو اپنا سنگیت سمجھنے لگا ہو، ۔۔۔ میرا ذہن ان سوالوں کا کوئی جواب نہ دے سکا۔‘
ساحر نے آگے چل کر دادا برمن سے اپنی پہلی ملاقات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ اس کے بعد وہ دادا برمن کا لوک موسیقی سے ابتدائی رویہ اور کایا کلپ ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔
’اس وقت تک ان کی ساری جد و جہد اور لگن کلاسیکی موسیقی کے لیے تھی، لوک سنگیت کو وہ بہت گھٹیا اور فالتو قسم کی چیز سمجھتے تھے۔ وہ لوک سنگیت سنتے ضرور تھے، پسند بھی کرتے تھے لیکن اسے فن کی کوئی عظیم اور قابل قدر صنف نہیں مانتے تھے ۔ دوسرے بڑے موسیقاروں کی طرح برمن صاحب کا بھی یہی خیال تھا کہ لوک سنگیت عظیم موسیقاروں کی چشم توجہ کا اہل نہیں ہے۔
’ایک دن وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ دور کے ایک گاؤں میں مچھلی کا شکار کھیلنے گئے اور رات وہیں رہے۔ ریاست کے حکام کی طرف سے کچہری میں ان کے سونے کا انتظام کروا دیا گیا۔
رات کے کھانے کے بعد ان کے نوکر نے انہیں بتایا کہ گاؤں میں چونکہ عرصے سے پانی نہیں برسا اور کھیت سوکھ گئے ہیں اس لئے کسان آج رات قدرت سے پانی مانگنے کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں۔ کئی ہزار کا مجمع ہے اور وہ سب گیت کا گا کر میگھ دیوتا کو رجھا رہے ہیں۔
’برمن نوکر کے ہمراہ باہر نکلے۔ باہر کھیتوں اور درختوں پر سیال چاندنی بکھری ہوئی تھی اور اس چاندنی میں ہزاروں کسان آواز سے آواز ملا کر گا رہے تھے۔
اللہ میگھ دے، پانی دے، چھایا دے توئی
(ترجمہ : اے خدا ، بادل بھیج ، پانی دے، سایہ دے)
استھائی ختم ہونے کے بعد ایک نوجوان نے جس کی آواز میں بلا کا اثر اور سریلا پن تھا انترہ اٹھایا۔
اشمان ہوئے لوٹو ڈا ٹو ڈا، زمین ہو لیو پھاڈا
میگھ رجا گھومیار پوچھے، پانی دیو کیڈا
(ترجمہ: آسمان پھٹا پھٹا ہے، اور زمین ترخ گئی ہے، بارش کا دیوتا سویا پڑا ہے اب پانی کون دے)
اور پھر ہزاروں آواز میں ایک ساتھ مل کر استھائی دہرانے لگیں۔
اللہ میگھ دے، پانی دے، چھایا دے توئی
برمن اس نغمے سے مسحور ہو گئے۔ یہ گیت زندگی سے کتنا قریب تھا۔ یہ آواز کتنی کچی اور پرخلوص تھی جیسے انسان نہ گا رہے ہوں، خود دھرتی گا رہی ہو، پیڑوں اور کھیتوں کی روح گا رہی ہو، کائنات اور کائنات کا خمیر گا رہا ہو، یہ نغمہ کتنا عظیم ہے، برمن نے سوچا جس کی لے لاکھوں انسانوں کی قلبی کیفیات سے ہم آہنگ ہے اور جس کے بول لاکھوں انسانوں کی خوشیوں اور غموں کے مخلص عکاس اور سچے رفیق ہیں۔
اس سنگیت کو گھٹیا کہنے والے خود گھٹیا ہیں اور اس رات انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ عوام کے قریب جائیں گے اور اپنا بیشتر وقت لوک سنگیت کے مطالعہ پر صرف کریں گے اور کلاسیکل میوزک کے ساتھ ساتھ عوامی نغموں اور عوامی دھنوں کو بھی سنگیت سبھاؤں میں لائیں گے۔
اللہ میگھ دے، پانی دے، چھایا دے توئی: کربلا سے لوک موسیقی اور فلم سنگیت تک کا سفر
بنگال کی لوک موسیقی کا حصہ بننے والا یہ گیت مشہور فوک گلوکار عباس الدین نے گایا تھا جس کے بول جلال الدین نامی نے لکھے تھے۔ ’اللہ میگھ دے‘ بنگال کی لوک موسیقی میں ’جاری گان‘ (Jarigan) روایت کا شاہکار ہے۔ یہ نام فارسی لفظ ’زاری‘ سے بنا جس کا مطلب ہے، ’رونا۔‘ اردو میں آہ و زاری عام لفظ ہے۔
بنگال میں جاری گان کی روایت سترھویں صدی سے چلی آتی ہے جب پہلی مرتبہ ایران سے واقعہ کربلا قصے کہانیوں کی شکل میں کلکتہ پہنچا اور اسے محمد خان جیسے نامور بنگالی شاعر نے رزمیہ نظم ’قتل حسین‘ سے جیتی جاگتی دھڑکن میں تبدیل کیا۔ اٹھارویں صدی میں بنگال پر حکومت کرنے والے نوابوں کی اکثریت شیعہ تھی جن کے دور میں محرم ایک ثقافتی سرگرمی میں تبدیل ہوا اور اس دوران ’جاری گان‘ کی روایت مزید مضبوط ہوتی چلی گئی۔
’اللہ میگھ دے‘ کربلا میں امام حسین کی پیاس کا استعارہ تھا جو کسانوں میں مقبول ہوتے ہوتے مون سون کی دعا میں تبدیل ہو گیا اور پورے بنگال میں اس کا دائرہ پھیل گیا۔
عباس الدین سے ایس ڈی برمن کی شناسائی محض اس گیت تک محدود نہ رہی بلکہ کلکتہ میں وہ باقاعدہ منفرد انداز کے مالک عباس الدین سے گائیکی کی نزاکتیں سیکھتے رہے۔
برمن کی آواز شروع سے ہی بہت مدھر تھی لیکن عباس الدین کی صحبت سے وہ خاص رنگ بنا جسے برمن کی ’شکستہ آواز‘ کہتے ہیں۔ اس منفرد سٹائل میں لفظ اور روایتی ردھم کو توڑ کر ایک سادہ دیہی انداز اپنایا جاتا ہے جو برمن دا کی پہنچان ہے۔
بعد میں اسی سٹائل کو آس پاس کے لوک گلوکاروں نے کاپی کیا جن میں ایک بڑا نام بھوپن ہزاریکا کا ہے۔ بھوپن دا کا گیت ’سمے او دھیرے چلو‘ یا ’دل ہوم ہوم کرے گھبرائے‘ اس انداز کے شاہکار ہیں۔
گائیڈ (1965) میں برمن کی آواز میں دو گیت ہیں: وہاں کون ہے تیرا (اس گیت میں برمن نے جیسے ’مسافر‘ کو ادا کیا وہ ’شکستہ آواز‘ کی بہترین مثال ہے ) اور دوسرا ’اللہ میگھ دے۔‘ ہندی میں اس کے بول شیلندر نے لکھے تھے جو اس قدر مقبول ہوا کہ بنگال میں عباس الدین کا گیت بھی اس کے سائے میں کہیں گم ہو گیا۔
بعد میں یہ گیت ’پلکوں کی چھاؤں میں‘ (1977) آر ڈی برمن نے استعمال کیا جو کشور اور آشا کی آواز میں بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ البتہ مہرین جبار نے پاکستانی فلم ’رام چند پاکستانی‘ میں اسے بطور ریفرنس انتہائی خوبصورتی سے استعمال کیا۔
’اللہ میگھ دے‘ سے برمن کا لوک موسیقی سے جو رشتہ بندھا وہ تمام عمر قائم رہا۔ کیسے انہوں نے نگری نگری گھوم کر لوک سنگیت سنا اور اس پر خاندان کی طرف سے کیا ردعمل آیا؟ ساحر کی زبانی جانتے ہیں۔
’بیچ بیچ میں وہ بنگال کے دور دراز دیہات میں نکل جاتے اور لوک گیتوں کی طرزیں جمع کرتے۔ ان کے اس طرز حیات کی اطلاع جب ریاست میں پہنچی تو مہاراج اور شاہی خاندان کے دوسرے افراد سخت خفا ہوئے۔ شاہی خاندان کا ایک فرد عام انسانوں، کاشتکاروں اور مانجھیوں کے ساتھ اپنا وقت گزارے، ان کے گیتوں کی طرزیں جمع کرے اور جلسوں میں گاتا پھرے، یہ انہیں پسند نہ تھا اور ان کا خیال تھا کہ برمن سارے خاندان کی عزت مٹی میں ملا رہا ہے چنانچہ انہوں نے سچن دیو برمن سے تعلقات منقطع کر لیے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔