نواں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) ویمنز ٹی20 ورلڈکپ جمعرات سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں شروع ہو رہا ہے۔
ہر دو سال بعد منعقد ہونے والے خواتین کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی اس مرتبہ بنگلہ دیش کے حصے میں آئی ہے۔ تاہم ورلڈ کپ کے میچز سلہٹ اور ڈھاکہ کی بجائے شارجہ اور دبئی میں کھیلے جائیں گے جس کی وجہ بنگلہ دیش میں حالیہ سیاسی تبدیلیاں اور انفراسٹرکچر میں کمی ہے۔
آئی سی سی نے بنگلہ دیش میں نامناسب صورت حال کے پیش نظر دو ماہ قبل ہی میچز دوسری جگہ کروانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تاہم خواتین کے اس عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کے حقوق بنگلہ دیش کے پاس ہی رہیں گے۔
گروپ پوزیشن
ورلڈکپ میں کوالیفائنگ راؤنڈز کے میچوں کے ذریعے 10 ٹیمیں پہلے ہی کوالیفائی کر چکی ہیں، جنہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
گروپ اے
اس گربوپ میں پاکستان سمیت آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انڈیا اور سری لنکا شامل ہیں۔
گروپ بی
یہ گروپ انگلینڈ، بنگلہ دیش، سکاٹ لینڈ، ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ہے۔
دونوں گروپوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ انڈیا اور آسٹریلیا کی موجودگی میں دوسری ٹیموں کے لیے مقابلہ بہت سخت ہو گا۔ آسٹریلیا چھ مرتبہ چیمپیئن رہ چکی ہے اس لیے اس کے ساتھ ہر ٹیم کا مقابلہ بہت سخت ہو گا۔
گروپ اے میں سب سے دلچسپ امر سری لنکن کی ٹیم کی موجودگی ہے، جس نے چند ماہ قبل ایشیا کپ میں انڈیا کو خلاف توقع شکست دی تھی۔ اس جیت نے سری لنکا کو بہت بہتر پوزیشن پر پہنچا دیا ہے۔
سری لنکن کپتان چماری اتاپتو ایک خطرناک کھلاڑی کے روپ میں سامنے آئی ہیں۔
انڈیا کی ٹیم بھی ایک مضبوط اور منظم ٹیم ہے۔ آسٹریلیا کے ساتھ کون سی ٹیم گروپ ونر بنتی ہے؟ یہ ایک دلچسپ مقابلہ ہو گا۔
ٹیموں کے مقابلوں میں پاکستان بھی کامیابی کے لیے جدوجہد کر رہا ہو گا۔
گروپ بی بظاہر آسان نظر آتا ہے تاہم انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز دونوں ایک ایک مرتبہ چیمپئنز رہ چکے ہیں۔ اس لیے ان کے عزائم خطرناک نظر آتے ہیں۔
انگلینڈ کی ٹیم نے گذشتہ چند سیریز میں شاندار کارکردگی دکھائی ہے اس لیے ان کا سیمی فائنل میں پہنچنا یقینی ہے۔ لیکن ساؤتھ افریقہ جو گذشتہ ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچی تھی کچھ بھی کر سکتی ہے۔
ویسٹ انڈیز کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ ویسٹ انڈیز روایتی جارحانہ کرکٹ کھیلتی ہے۔
ٹورنامنٹ کے طریقہ کار کے مطابق دونوں گروپوں سے دو دو ٹیمیں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کریں گی، جب کہ فائنل 20 اکتوبر کو دبئی میں کھیلا جائے گا۔
بھاری انعامی رقم
ویمنز ورلڈکپ کے لیے انعامی رقم میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور 80 لاکھ ڈالر کے انعامات تقسیم کیے جائیں گے۔ فائنل کی فاتح ٹیم کو 24 لاکھ ڈالر اور رنر اپ کو 12 لاکھ ڈالر ملیں گے، جب کہ ہر شریک ٹیم کو 67 ہزار ڈالر دئیے جائیں گے۔
ورلڈکپ کے نشریاتی حقوق ریکارڈ قیمت پر فروخت ہونے سے آئی سی سی نے انعامی رقوم میں اضافہ کیا ہے۔
پاکستان ٹیم سے توقعات
پاکستان ٹیم کی قیادت فاطمہ ثنا کر رہی ہیں، جو گذشتہ طویل عرصہ سے بری کارکردگی دکھا رہی ہیں۔
ندا ڈار کی کپتانی کو برے نتائج کے بعد تبدیل کیا گیا۔ ٹیم کے ہیڈ کوچ محمد وسیم اور فاسٹ بولنگ کوچ جنید خان ہیں۔
اس سے قبل سلیم جعفر ہیڈ کوچ اور عمر رشید بولنگ کوچ تھے لیکن طویل عرصہ تک خراب کارکردگی کے بعد پی سی بی نے کوچنگ سٹاف کو تبدیل کر دیا تھا۔ کوچز کی تبدیلی بھی ٹیم کو وننگ ٹریک پر نہیں لا سکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان نے ورلڈکپ سے قبل ساؤتھ افریقہ کے خلاف تین میچوں پر مشتمل سیریز کھیلی ہے، جس میں دو میچوں میں شکست نے ورلڈکپ سے قبل تیاریوں کو واضح کر دیا۔
پاکستان ٹیم صرف ایک میچ جیت سکی لیکن باقی دو میچ یکطرفہ ہی رہے۔
ورلڈکپ میں ٹیم کی بیٹنگ کا اصل بوجھ منیبہ علی اور سدرہ امین پر ہو گا، جو سینئیر کھلاڑی ہیں۔
منیبہ علی سنچری بنانے والی واحد بلے باز ہیں، جب کہ سدرہ بھی تجربہ کار بلے باز ہیں۔
گل فیروزہ نئی لیکن جارحانہ کھلاڑی ہیں، جب کہ مِڈل آرڈر میں ندا ڈار اور صدف شمس بھی بہتر بیٹنگ کر سکتی ہیں۔
عالیہ ریاض کی طویل عرصہ سے کھیلنے اور خراب کارکردگی کے باوجود ٹیم میں شمولیت ایک سوالیہ نشان ہے۔
طوبیٰ حسن، ڈیانا بیگ اور نشرح سندھو کی کارکردگی بھی غیر معیاری ہے لیکن سیلیکٹرز نے انہی کھلاڑیوں کو منتخب کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ویمنز ٹیم کی سیلکشن کہیں اور ہوتی ہے۔
دو سابق کپتانوں کی رسہ کشی نے بھی ٹیم کو گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
کپتان فاطمہ ثنا ایک اچھی بولر ہیں اور بوقت ضرورت بیٹنگ بھی کر لیتی ہیں۔ سعدیہ اقبال، ندا ڈار اور فاطمہ ثنا ہی اہم بولر ہوں گی۔
ٹیم کا سپن بولنگ شعبہ کسی حد تک بہتر ہے لیکن معیاری فاسٹ بولر اور اچھے بلے بازوں کی قلت کے باعث ٹیم گروپ سطح سے آگے جاتی نظر نہیں آتی۔
پاکستان ٹیم کے لیے اہم ہو گا کہ وہ انڈیا اور سری لنکا کے خلاف بہتر کارکردگی دکھائے۔
انڈین ٹیم اگرچہ کافی تجربہ کار ہے لیکن ٹی ٹوینٹی کرکٹ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی نے گذشتہ کئی سیریز میں پاکستانی خواتین کی خراب کارکردگی پر ایکش لیتے کوئے کوچنگ سٹاف اور سیلیکشن کمیٹی تبدیل کی تھی تاہم کھلاڑیوں کے معیار میں ابھی تک کوئی فرق نہیں آیا۔