اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویتریش نے پیر کو اسرائیل کی فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ’یو این آر ڈبلیو اے‘ پر پابندی کی قانون سازی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ’تباہ کن‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ’یو این آر ڈبلیو اے کا کوئی متبادل نہیں‘ اور یہ ایجنسی خطے میں استحکام کے لیے ضروری ہے۔
گویتریش یو این آر ڈبلیو اے کے اہم کردار اور اس پر پابندی کے نتائج کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس میں اس بات پر زور دیا جائے گا کہ ایجنسی استحکام برقرار رکھنے اور بڑھتے ہوئے بحران کے درمیان لاکھوں لوگوں کی مدد کرنے کے لیے ’ناگزیر‘ ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی قانون سازوں نے پیر کو دو قوانین منظور کیے ہیں جن سے غزہ میں لوگوں کو امداد فراہم کرنے والے اقوام متحدہ کے اہم ادارے کا کام خطرے میں پڑ سکتا ہے، اسے کام سے روکا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ تعلقات منقطع کیا جا سکتے ہیں اور اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ قوانین، جو فوری طور پر نافذ العمل نہیں، اسرائیل اور اقوام متحدہ کے درمیان طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات میں مزید اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اس قانون سازی سے خطرہ ہے کہ غزہ میں امداد کی تقسیم کا پہلے سے نازک عمل ختم ہو سکتا ہے، جب کہ اسرائیل پر امریکہ کی جانب سے امداد بڑھانے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ یو این آر ڈبلیو اے کے عملے کے ہزاروں ارکان میں سے کچھ نے اکتوبر 2023 میں حماس کے حملوں میں حصہ لیا۔
اس نے یہ بھی کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے کے سینکڑوں عملے کے عسکریت پسندوں سے تعلقات ہیں اور اسے ایجنسی کی تنصیبات کے قریب یا اس کے نیچے سے حماس کے فوجی اثاثے ملے ہیں۔
ایجنسی نے تحقیقات کے بعد نو ملازمین کو برطرف کر دیا تھا، لیکن اس بات سے انکار کیا کہ وہ جان بوجھ کر مسلح گروہوں کی مدد کرتی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی صفوں سے کسی بھی مشتبہ عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے کے لیے فوری طور پر کارروائی کرتی ہے۔
اسرائیل کے بین الاقوامی اتحادیوں نے کہا ہے کہ وہ اس قانون سازی کے فلسطینیوں پر ممکنہ اثرات کے بارے میں گہری تشویش رکھتے ہیں کیونکہ جنگ کے انسانی نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق یو این آر ڈبلیو اے کو ابتدائی طور پر 1949 میں اقوام متحدہ نے پہلے عرب اسرائیل تنازعے کے دوران بے گھر ہونے والے ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کی مدد کے لیے قائم کیا تھا، جس کے بعد سے یہ ایجنسی غزہ، مغربی کنارے، لبنان، اردن اور شام میں تقریباً 60 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ایک اہم ضرورت بن گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ایجنسی تعلیم، صحت اور سماجی امداد سمیت اہم خدمات فراہم کرتی ہے، جس میں 30 ہزار سے زیادہ افراد کو روزگار فراہم کیا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر فلسطینی پناہ گزین شامل ہیں۔
یہ ایجنسی 58 سرکاری کیمپ اور 700 سے زیادہ سکول چلاتی ہے جہاں پانچ لاکھ طالب علم ہیں، اس کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات بھی ہیں جو ہر سال لاکھوں مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔
اسرائیل طویل عرصے سے یو این آر ڈبلیو اے پر تنقید کرتا رہا ہے، جس نے اس پر فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کو برقرار رکھنے کا الزام عائد کیا اور حال ہی میں سات اکتوبر، 2023 کو اسرائیل میں حماس کے حملے کے بعد اس گروپ کے ساتھ تعلقات کا الزام لگایا ہے۔ ایجنسی نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔
ان الزامات کی روشنی میں کچھ ممالک نے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ کو مختصر وقت کے لیے روک دیا تھا، تاہم اکثر نے اس کے بعد حمایت دوبارہ شروع کردی۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعے کے آغاز کے بعد سے یو این آر ڈبلیو اے کا بنیادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور غزہ میں اس کی دو تہائی تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے یا تباہ کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ امریکی اور اسرائیلی حکام بشمول وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے علاقائی کشیدگی میں کمی کے ممکنہ راستوں پر تبادلہ خیال کیا ہے، اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز نے 28 روزہ فائر بندی کی تجویز پیش کی ہے، جس میں حماس اور اسرائیل دونوں کی طرف سے قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔