ریاست کے وسائل کس کے ہیں؟ ان پر ملکیت کا حق کس کو حاصل ہے؟ ان کی تقسیم اور ان کے استعمال کے لیے فیصلے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ ان سوالات کا انحصار اس بات پر ہے کہ ریاست اور شہریوں کا تعلق کس اصول پر قائم ہے؟ اس آخری سوال پر غور کریں تو ایک اور سوال سامنے کھڑا ہوتا ہے کہ ’کیا ریاست ہدف ہے یا وسیلہ؟ مقصد ہے یا ذریعہ؟ منزل ہے یا راستہ؟‘ اور ان سارے سوالات سے پہلے بنیادی سوال: ریاست کیا ہے؟ اسی سے شروع کر لیتے ہیں۔
سیاسیات کی نصابی کتب میں عام طور پر ریاست کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ چار عناصر کے مجموعے کو ریاست کہا جاتا ہے۔۔ مخصوص خطہ زمین، اس پر مستقل قیام پذیر آبادی، وہاں قائم منظم حکومت اور اقتدارِ اعلیٰ۔ ’ریاستوں کے حقوق وہ فرائض کے متعلق مونٹی ویڈیو معاہدہ‘ اقتدار اعلیٰ کی جگہ ’دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی صلاحیت‘ کی ترکیب استعمال کرتا ہے۔
ان چار عناصر کا مجموعہ ایک الگ اور مستقل قانونی وجود اور شخصیت رکھتا ہے۔ گویا ریاست قانون کی نظر میں ایک ’فرضی شخص‘ہے۔ بین الاقوامی قانون اس فرضی شخص پر فرائض عائد اور اس کے لیے حقوق متعین کرتے ہیں۔
ریاست نام کا یہ فرضی شخص وجود میں کیسے آتا ہے؟ سیاسیات کی نصابی کتب میں اس کے لیے مختلف نظریات بیان کیے جاتے ہیں۔ مثلاً برطانیہ کے ایک بادشاہ نے کہا تھا کہ اسے خدا نے حکمران بنایا ہے اور خدا نے ہی لوگوں کو اس کا محکوم بنایا ہے۔ ’خدائی استحقاق‘ کا یہ نظریہ آج عجیب معلوم ہوتا ہے حالانکہ آج بھی جب ریاست اور اس کے ادارے اپنے اختیارات پر کسی طرح کے حدود کا انکار کرتے ہیں، تو یہ اصل میں ’خدائی استحقاق‘ کے اس نظریے ہی کی بازگشت ہوتی ہے۔
تاہم بقول اقبال، جب سے آدم ذرا خود شناس اور خود نگر ہوا ہے، تو ’خدائی استحقاق‘ کے اس نظریے کو ’جمہوری لباس‘ پہنا دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ مان لیا گیا ہے کہ حاکم و محکوم کا تعلق ایک ’عمرانی معاہدے‘ کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے، ایک ایسا معاہدہ جس میں حاکم و محکوم کے حقوق و فرائض متعین کر دیے گئے ہیں۔
کئی لوگ ریاست کے آئین کو ہی ایک ایسا عمرانی معاہدہ سمجھتے ہیں۔ یہ مؤقف کئی سوالات اور تضادات کو جنم دیتا ہے، لیکن ان کو نظر انداز کرکے فی الوقت اس بات پر غور کی ضرورت ہے کہ ’وفاقی ریاست‘ کئی اکائیوں کا مجموعہ ہوتی ہے اور وہ اکائیاں اپنی خود مختاری بڑی حد تک محفوظ رکھتے ہوئے دفاع، امور خارجہ اور ایسے چند مخصوص امور میں اپنا اختیار ایک وفاقی حکومت کے لیے چھوڑی دیتی ہیں۔
اس لیے اس بندوبست کا تحریر میں لانا ضروری ہوتا ہے اور اس تحریری بندوبست کو، جسے آئین کہا جاتا ہے، وفاقی ریاست کی ان اکائیوں کے درمیان ایک ’بین الاقوامی معاہدے‘ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس معاہدے میں وفاق اور اکائیوں کے درمیان (جنھیں ہمارے ہاں صوبے کہا جاتا ہے) امور طے کر لیے جاتے ہیں اور تمام فریقوں کے لیے حدود کا تعین کر لیا جاتا ہے۔
مثلاً ہمارے آئین کی دفعہ 172 میں طے کیا گیا ہے کہ پاکستان کے علاقائی پانیوں سے ماورا سمندری سطح میں زمین، معدنیات اور دیگر قیمتی اشیا کی ملکیت وفاقی حکومت کے پاس ہو گی، لیکن کسی صوبے یا اس سے متصل علاقائی پانی میں معدنی تیل اور قدرتی گیس صوبے اور وفاقی حکومت کی مشترک ملکیت میں ہوں گے۔
اسی طرح زمینی محصولات کے لیے قانون سازی کا اختیار صوبوں کے پاس ہے اور ایسے قوانین میں تصریح کی گئی ہے کہ تمام معدنیات اور کانیں صوبائی حکومت کی ملکیت میں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی، یا خود ریاست، اس کے پاس یہ ملکیت کہاں سے آ گئی؟ کیا اسے یہ ملکیت وراثت میں ملی ہے یا جہیز میں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارا آئین اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع ہوتا ہے اور آئین کے دیباچے کی ابتدا میں یہ اقرار کیا گیا ہے کہ پوری کائنات پر اقتدارِ اعلیٰ تنہا اللہ تعالیٰ کا ہے اور یہ کہ اس کے تفویض کردہ اختیارات پاکستان کے عوام کے پاس ایک ’مقدس امانت‘ کے طور پر ہیں، جنھیں وہ ’اس کے مقرر کردہ حدود کے اندر‘ رہ کر ’اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے‘ استعمال کریں گے۔
تو پھر اصل سوال وراثت یا جہیز کا نہیں ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ معدنیات اور دیگر وسائل کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کیا حدود مقرر کی ہیں اور پاکستان کے عوام نے اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود کے اندر اس اختیار کے استعمال کے لیے اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے آئین و قانون میں کیا اصول طے کیے ہیں؟ اس آئینی و قانونی بندوبست سے باہر کسی کو ملکیت یا تصرف کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، نہ اس ملکیت یا تصرف کو ’قومی مفاد‘ یا ’ملکی سلامتی‘ جیسے مجمل تصورات کی بنیاد پر جواز مل سکتا ہے۔
ایک یہودی لوک کہانی میں سکندر اعظم کسی دور دراز علاقے میں ایک قبیلے تک پہنچ جاتا ہے اور وہاں کے سردار سے کہتا ہے کہ وہ ان کے رسم و رواج کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ سردار اسے اپنے ساتھ ایک مقدمے کی سماعت کے لیے بٹھاتا ہے۔
مقدمے کا مدعی کہتا ہے کہ اس نے زمین اپنے دوست کو بیچ دی تھی لیکن بعد میں اس زمین میں خزانہ نکل آیا، تو اب اس کا دوست وہ خزانہ اسے لوٹا دینا چاہتا ہے، جب کہ خود اس کا دعویٰ ہے کہ وہ زمین سب کچھ سمیت بیچ چکا ہے اور اس لیے وہ زمین واپس نہیں لے سکتا۔
سردار اس کے دوست سے پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نے تو صرف زمین ہی خریدی تھی، خزانے کا تو مجھے علم ہی نہیں تھا، اس لیے یہ خزانہ میں نہیں لے سکتا۔ سردار ان دونوں سے پوچھتا ہے کہ کیا ان کے بیٹے اور بیٹی کی آپس میں شادی کرائی جا سکتی ہے؟ ان کی رضامندی پر وہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ خزانہ اس بچی کو جہیز میں دے دیا جائے۔
سکندر حیرت سے یہ سب کچھ دیکھتا ہے۔ سردار اس کی حیرت کی وجہ پوچھتا ہے، تو سکندر بتاتا ہے کہ میرے ملک میں یہ مقدمہ یوں ہوتا کہ مدعی خزانے پر دعویٰ کرتا اور مدعا علیہ اسے خزانہ دینے سے انکار کرتا۔ سردار پوچھتا ہے کہ پھر آپ کیسے فیصلہ کرتے۔
سکندر کہتا ہے کہ میرا فیصلہ یہ ہوتا کہ زمین خریدار کی ہوئی، قیمت فروخت کنندہ لے، اور خزانہ میرا! سردار حیرت سے پوچھتا ہے کہ کیا تم لوگوں کو رزق وافر مقدار میں ملتا ہے؟ سکندر جواب دیتا ہے کہ ہاں۔ سردار تھوڑی دیر سوچتا ہے، پھر پوچھتا ہے کہ کیا تمھارے ہاں بچے، بوڑھے، ضعیف اور معذور لوگ پائے جاتے ہیں؟
سکندر کہتا ہے کہ ہاں۔ سردار کہتا ہے کہ تمھیں رزق انھی کی وجہ سے ملتا ہے ورنہ تمھارے کرتوت ایسے ہیں کہ تم اس رزق کے مستحق نہیں تھے۔
پروفیسر و سربراہ، شعبۂ شریعت و قانون، شفا تعمیرِ ملت یونیورسٹی، اسلام آباد؛ سابق سیکرٹری چیف جسٹس آف پاکستان
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔