پاکستان کے وزیر اطلاعات ونشریات عطا اللہ تارڑ نے اتوار کو دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مراد سعید مسلح افراد کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ احتجاج میں شریک تھے اور وہ اس وقت وزیراعلیٰ ہاؤس خیبرپختونخوا میں روپوش ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ مراد سعید نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں لاشیں گرانے کا منصوبہ بنایا۔ ’ان کی گرفتاری کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس پر چھاپہ مارنا اچھا نہیں لگتا۔‘
عطا تارڑ کے مراد سعید پر الزامات کے حوالے سے پی ٹی آئی نے فی الحال کوئی ردعمل نہیں دیا۔
وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ ’اس احتجاج کی وجہ سے ملک کو 192 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ خیبرپختونخوا کے عوام کو میں سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ان کی کال کو مسترد کیا۔ ان کے ساتھ صرف دو ڈھائی ہزار لوگ رہ گئے تھے۔‘
پی ٹی آئی کی 24 نومبر کو اسلام آباد کی جانب مارچ کی ’فائنل کال‘ کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی قیادت میں پارٹی کا مرکزی قافلہ اسلام آباد جانے کے لیے نکلا تھا۔
یہ قافلہ رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے 26 نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچا، تاہم سکیورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن کرکے علاقے کو پی ٹی آئی کے کارکنوں سے خالی کروا لیا۔
وزیر اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں موجود مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں کسی بھی شہری کی جان نہیں گئی۔
ان کا دعویٰ تھا کہ وفاقی دارالحکومت کے ہسپتالوں کی انتظامیہ کے مطابق تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران وہاں کوئی لاشیں نہیں لائی گئیں۔
’بڑا افسوس ہوتا ہے کہ اب ڈیڈ باڈی کی سیاست کی جا رہی ہے۔‘
عطا تارڑ نے مزید کہا کہ پہلے کہا گیا کہ سنائپر نے مارا پھر کہا گیا کہ سامنے سے گولیاں ماری گئیں۔ ’ٹی وی چینلز نے ایسا کوئی منظر نہیں دکھایا جہاں عمارتوں پر سنائپرز کھڑے ہوں یا سامنے سے گولی چلائی گئی ہو۔ احتجاج میں فورسز کو اسلحہ نہیں دیا جاتا۔‘
وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں تربیت یافتہ مسلح افغان شہری اور دیگر شرپسند عناصر موجود تھے اور مظاہرین جدید اسلحہ اور آنسو گیس کے شیل چلانے میں ماہر تھے۔
وزیر اطلاعات کے مطابق اس احتجاج میں 37 افغان شہری بھی شریک تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ ’کیا ہمارا آئین اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ غیر ملکی شہری احتجاج کریں؟‘
عطا تارڑ کے بقول: ’ایک لڑکا جو افغان شہری ہے اس کو ڈی چوک سے گرفتار کیا گیا۔ 45 کے قریب بندوقیں بھی پولیس نے تحویل میں لی ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی ناکامی اور فرار پر پردہ ڈالنے کے لیے پراپیگنڈا کیا جارہا ہے، پیشگی خفیہ اطلاعات تھیں کہ فائنل کال کی آڑ میں حملہ کیا جائے گا۔
’ اسلام آباد ہائی کورٹ کی اجازت کے بغیر ہونے والا احتجاج غیر قانونی تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ رینجرز پر گاڑی چڑھائی گئی، کیا وہ اہلکار پاکستانی شہری نہیں تھے؟ اندھا دھند فائرنگ مظاہرین کی جانب سے کی گئی۔
پی ٹی آئی کے احتجاج میں اموات کے دعوے کے حوالے سے عطاللہ تارڑ نے کہا کہ غیر ملکی میڈیا مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کی گئی والی تصاویر دکھا رہا ہے۔
’غزہ کی تصاویر شیئر کی گئیں اور ایک 2019 والی تصویر بھی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عطااللہ تارڑ نے کہا کہ یہ فرار کی شرمندگی کو مٹانے کے لیے لاشوں کا الزام لگا رہے ہیں، جس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ’محض سیاسی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا انہوں نے خود تمام مقامات دیکھے، کہیں کسی سڑک پر خون کا دھبہ تک نہیں تھا۔
’اب یہی راستہ رہ گیا ہے کہ ایف آئی اے کے ذریعے نوٹس کروائیں اور الزام لگانے والوں سے کہا جائے کہ وہ ثابت کریں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیقات کے مطابق رواں ہفتے پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران جان سے جانے والے افراد کی تعداد 10 ہے، جبکہ گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے تقریباً 110 افراد ہسپتالوں میں لائے گئے۔
تاہم پی ٹی آئی کے مطابق اس احتجاج میں ان کے ’12 کارکن قتل ہوئے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے جمعے کو پشاور میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اسلام آباد میں احتجاج کے دوران 12 کارکنان قتل کیے گئے اور کئی زخمی ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’حکومت کا بیان ہے کہ ایک گولی بھی نہیں چلی لیکن ثبوت اور ویڈیو موجود ہے کہ کتنی گولیاں ماری گئیں، 12 لوگ موقعے پر ہی شہید ہوئے، جن میں سے سات کا تعلق خیبرپختونخوا، دو کا تعلق بلوچستان سے ہے، پنجاب، آزاد کشمیر اور اسلام آباد کا ایک ایک کارکن بھی 26 نومبر کو جان سے گیا۔‘
تاہم پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے اموات کے حوالے سے مختلف اعداد و شمار بیان کیے ہیں۔