ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ بندر عباس پر ہفتے کو ہونے والے مبینہ طور پر کیمیاوی مواد سے پھٹنے والے ایک بڑے دھماکے میں جان سے جانے والوں کی تعداد بڑھ کر 40 ہو گئی ہے، جب کہ 1200 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایرانی سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بندر عباس کے شاہد رجی نامی حصے میں ہونے والے ہونے والے دھماکے کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد 40 ہو گئی ہے۔
ایرانی حکومت کے ایک ترجمان نے ایرانی میڈیا کو بتایا کہ اگرچہ دھماکہ کیمیاوی مواد کے پھٹنے سے ہوا لیکن اس کی صحیح وجہ جاننے کے لیے تحقیقات کی جا سکتی ہیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق رجائی پورٹ کمپلیکس میں جو کہ ایران کی تجارت کا دھڑکتا دل سمجھا جاتا ہے، متعلقہ اداروں اور حکام کی کوششوں سے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں معمول کی سرگرمی میں بحال کر دی گئی ہیں اور ٹرانزٹ سمیت امپورٹ ایکسپورٹ بھی آپریشنل ہیں۔
ایرانی بندرگاہ پر دھماکہ ایسے وقت پر ہوا جب ایران نے عمان میں امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کا تیسرا دور شروع کیا، لیکن ان دونوں واقعات کے درمیان تعلق کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایران کے سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ صوبہ ہرمزگان کے صدر مقام بندر عباس شہر میں اتوار کے لیے تمام سکول اور دفاتر بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے
کرائسس مینجمنٹ کے صوبائی سربراہ مہرداد حسن زادہ نے سرکاری ٹیلی ویژن کے حوالے سے بتایا کہ ’بندر عباس شہر میں سکول، دفاتر اور یونیورسٹیاں اتوار کو بند رہیں گی، تاکہ حکام ہنگامی کوششوں پر توجہ مرکوز کر سکیں کیونکہ علاقے میں دھواں پھیل رہا ہے۔‘
ایران کے وزیر داخلہ اسکندر مومنی نے ہفتے کو سرکاری میڈیا کو بتایا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ بندرعباس میں مبینہ طور پر کیمیکل مواد کے پھٹنے سے ہوئے زوردار دھماکے میں کم از کم آٹھ افراد جان سے گئے جبکہ 750 سے زائد زخمی ہوئے۔
دھماکہ بندرگاہ کے شہید رجائی سیکشن میں پیش آیا۔ ایران کی کرائسس مینیجمنٹ آرگنائزیشن کے ترجمان حسین ظفری نے دھماکے کی وجہ کنٹینرز میں موجود کیمیکل مواد کے ناقص ذخیرے کو قرار دیا۔
رجائی پورٹ جس کی سالانہ گنجائش 88 ملین ٹن سے زیادہ سامان کی ہے، ایران کی سب سے اہم اور خطے کی دوسری بڑی پورٹ ہے۔ اسے برآمدات اور درآمدات کا گیٹ وے، ملکی معیشت کا ریگولیٹر، اور شمال-جنوب ٹرانزٹ کوریڈور کے چوراہے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
انہوں نے ایران کی خبر رساں ایجنسی ’ایلنا‘ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’دھماکے کی وجہ کنٹینرز کے اندر موجود کیمیکل تھے۔‘
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیاں کو فون کر کے واقعے پر ’گہرے صدمے‘ کا اظہار کیا۔
شہباز شریف نے ایکس پر جاری بیان میں بتایا کہ انہوں نے فون پر ’قیمتی جانوں کے ضیاع پر ایران سے اظہار یکجہتی کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے لکھا: ’ہم نے خطے کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ خطے میں امن کے لیے پاکستان کی مضبوط خواہش کا اعادہ کیا اور ہر شکل میں دہشت گردی کی مذمت دہرائی۔‘
بیان کے مطابق: ’پاکستان خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے۔ انڈیا کی جانب سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی مذمت کی، جسے پاکستان ناقابل قبول سمجھتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں پاکستان کی پختہ اور غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بندرگاہ پر کئی کنٹینر پھٹ گئے جس کے نتیجے میں ایک بڑا دھماکہ ہوا اور آگ بھڑک اٹھی۔
ظفری نے کہا کہ ’ماضی میں کرائسس مینیجمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل نے بندرگاہ کے دوروں کے دوران خبردار کیا تھا اور ممکنہ خطرے کی نشاندہی کی تھی۔‘
تاہم ایرانی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ اگرچہ دھماکے کی ممکنہ وجہ کیمیکل مواد ہو سکتا ہے، لیکن ابھی تک اس کی درست وجہ کا تعین نہیں کیا جا سکا۔
ایران کے صدر مسعود پزشکیاں نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے وزیر داخلہ کو جائے وقوعہ پر بھیجا ہے، جنہوں نے بتایا کہ آگ بجھانے اور اسے دیگر علاقوں تک پھیلنے سے روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ایران کے سرکاری نیوز چینلز نے دھماکے کے بعد بندرگاہ کے اوپر اٹھتے ہوئے سیاہ اور نارنجی دھویں کے بڑے بادلوں کی ویڈیوز نشر کیں۔
ایک دفتر کی عمارت کو بھی دکھایا گیا جس کے دروازے اکھڑ چکے تھے اور کاغذات اور ملبہ ہر طرف بکھرا ہوا تھا۔
سرکاری میڈیا کے مطابق تہران سے ایک ہزار کلومیٹر دور واقع رجائی بندرگاہ ایران کی سب سے بڑی کنٹینر بندرگاہ ہے، جہاں ملک کے زیادہ تر کنٹینر سامان کی ترسیل ہوتی ہے۔
یہ بندرگاہ صوبہ ہرمزگان کے دارالحکومت بندرعباس سے 23 کلومیٹر مغرب اور آبنائے ہرمز کے شمال میں واقع ہے جہاں سے دنیا کی تیل کی پیداوار کا پانچواں حصہ گزرتا ہے۔
یرانی میڈیا کے مطابق دھماکے کی شدت سے کئی کلومیٹر کے دائرے میں کھڑکیاں چکناچور ہو گئیں اور اس کی آواز بندرگاہ سے 26 کلومیٹر جنوب میں واقع قشم جزیرے تک سنی گئی۔
نیم سرکاری تسنیم نیوز ایجنسی نے زخمی افراد کی ویڈیوز جاری کیں جن میں انہیں سڑک پر زخمی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے اور امدادی کارکن ان کی مدد کر رہے ہیں جبکہ مجموعی طور پر افراتفری کا منظر تھا۔
سرکاری ٹی وی نے اس سے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ آتش گیر مواد کو غلط طریقے سے سنبھالنا دھماکے کا ایک ’اہم سبب‘ تھا۔
مقامی کرائسس مینیجمنٹ کے ایک اہلکار نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ بندرگاہ پر ذخیرہ شدہ کئی کنٹینرز کے پھٹنے کے بعد دھماکہ ہوا۔
امدادی کارکن آگ بجھانے میں مصروف ہیں جبکہ بندرگاہ کے کسٹمز حکام نے کہا کہ ٹرکوں کو علاقے سے نکالا جا رہا ہے اور جس کنٹینر یارڈ میں دھماکہ ہوا وہاں غالبا ’خطرناک اشیا اور کیمیکل‘ موجود تھے۔
حکام کے مطابق دھماکے کے بعد بندرگاہ پر تمام سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔