’میں نے کریم کی ایپ کھولی تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس پر لکھا ہوا آ رہا تھا کہ ’ہم آپ کو الوادع کہتے ہیں‘۔ جس ایپ یا سروس سے ہم جڑنے لگتے ہیں، وہ بند ہو جاتی ہے۔‘
کراچی کی رہائشی ڈاکٹر لاریب آن لائن ٹیکسی سروس کریم کی مستقل صارف رہی ہیں اور اب اس کی بندش کے اعلان سے کچھ پریشان ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول لاریب: ’کریم پاکستان میں (آن لائن ٹیکسی سروس) کے بانیوں میں سے تھی۔ اس پر کافی وقت سے اعتماد ہے۔ ان کے کرایوں اور باقی سروسز کے کرایوں کا اگر میں موازنہ کروں تو وہ کافی مہنگے ہیں۔‘
2015 میں جب کریم نے پاکستان میں اپنی ٹیکسی سروس کا آغاز کیا، تو عوام کو ایک محفوظ، آرام دہ اور قابلِ اعتماد سفری آپشن ملا۔
یہ سہولت صرف سفر تک محدود نہ تھی، بلکہ لاکھوں نوجوانوں اور ڈرائیورز کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بنی۔ تاہم اب، تقریباً 10 سال بعد، کریم کا 18 جولائی 2025 سے اپنی سروس بند کرنے کا فیصلہ ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جو عوامی سفری سہولتوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
کریم کے شریک بانی اور سی ای او مدثر شیخا نے 18 جون کو لنکڈ اِن پر اعلان کیا کہ یہ فیصلہ ملک کی معاشی صورتِ حال، بڑھتی ہوئی مسابقت اور عالمی سرمایہ کاری کی ترجیحات کے باعث کرنا پڑا۔
ان کے مطابق پاکستان میں رائیڈ ہیلنگ سروس کا باب تو ختم ہو رہا ہے، تاہم کریم ٹیکنالوجیز (ایوری تھنگ) کے ذریعے کمپنی کا سفر ایک نئے انداز میں جاری رہے گا۔ اس وقت 400 سے زائد ماہرین پاکستان سے مختلف ٹیکنالوجی سروسز پر کام کر رہے ہیں، اور 100 نئی آسامیوں کے لیے بھرتی کا عمل بھی جاری ہے۔
کراچی، جو پاکستان کا سب سے بڑا اور معاشی حب ہے، یہاں روزانہ متعد افراد کو مختلف مقامات پر پہنچنے کے لیےقابلِ اعتماد ٹرانسپورٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ سرکاری ٹرانسپورٹ نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اکثر غیر محفوظ بھی سمجھی جاتی ہے۔ یہ سروس خاص طور پر ان اوقات میں مددگار ثابت ہوتی ہے جب روایتی ٹرانسپورٹ دستیاب نہ ہو مثلاً رات گئے، بارش میں یا ہنگامی حالات میں۔
کریم اور دیگر آن لائن ٹیکسی سروسز نے پاکستانی خواتین کو وہ سفری آزادی دی جو برسوں سے صرف خواب رہی تھی۔ خواتین نے خاص طور پر کریم کا اعتماد سے استعمال کیا کیونکہ ہر رائیڈ کی مکمل معلومات گھر والوں سے شیئر کی جا سکتی تھی اور ایپ کے ذریعے ڈرائیور کی درجہ بندی، ریویوز اور لوکیشن مسلسل مانیٹر کی جا سکتی تھی۔
بہت سی خواتین، چاہے وہ طالبات ہوں یا ملازمت پیشہ، کریم کو اپنا محفوظ اور قابلِ اعتماد سفری ساتھی سمجھتی تھیں۔ اب جب یہ سہولت ختم ہو رہی ہے تو ان کے لیے روزمرہ کے سفر میں اعتماد اور تحفظ کے پہلو سے بڑا خلا پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
براہِ راست متاثر ہونے والے افراد کی آواز
کریم کے جانے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں ڈرائیور، خواتین، اور وہ شہری شامل ہیں، جن کے لیے وقت پر، محفوظ اور آرام دہ سفر زندگی کی مجبوری ہے۔
ڈرائیور محمد حامد 12 سال سے ڈرائیونگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کریم سے انہیں آن لائن ٹیکسی کے ذریعے سے روزگار کا اچھا خاصا حصول ہوا، ڈرائیونگ کے شعبے سے جڑے بہت سے افراد کے لیے آن لائن سروسز کسی روزگار کے وسیلے سے کم نہیں تھیں۔ کریم کے ساتھ کام کر کے روزانہ کے اچھے خاصے پیسے بن جاتے تھے۔ اب یہ سہولت محدود ہو گئی ہے، تو آمدنی کے مواقع بھی کم ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر لاریب کا ماننا ہے کہ کراچی جیسے شہر میں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ اکثر ہجوم اور بد نظمی کاشکار ہوتی ہے، خواتین کے لیے وقت پر دفتر یا ہسپتال پہنچنا ایک مسلسل چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
اعزاز ہاشمی کریم صارف ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ’کریم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ پانچ منٹ میں گاڑی پہنچا دیتی تھی اور ہم وقت پر دفتر پہنچ جاتے تھے۔ اب جب کریم جا رہی ہے تو متبادل سروسز نہ صرف محدود ہیں بلکہ اکثر بکنگ میں تاخیر کرتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’جب صارفین کے پاس کئی چوائسز ہوتی ہیں تو نہ صرف قیمتوں میں توازن آتا ہے بلکہ سروس کامعیار بھی بہتر ہوتا ہے۔ کریم کے جانے سے نہ صرف وقت ضائع ہو رہا ہے بلکہ سفر کا آرام اور اعتماد بھی متاثر ہو رہا ہے۔‘
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور نجی شعبے میں نوکریوں کے مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ آن لائن ٹیکسی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی مسابقت اور سرمایہ کاری کے چیلنجز اپنی جگہ لیکن اس کے معاشرتی اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
گو کہ، اِن ڈرائیو، یانگو اور بائیکیا جیسی دیگر سروسز اب بھی دستیاب ہیں، لیکن صارفین کا کہنا ہے کہ کہیں کرائے بہت زیادہ ہیں، کہیں ڈرائیورز کی تربیت کا فقدان، تو کہیں ایپ کی سروس غیر مستحکم ہے۔ کریم نے جومعیار قائم کیا تھا، اس کا نعم البدل فی الحال دستیاب نہیں۔