’زبردستی توہینِ مذہب کا اعتراف کروانے کی کوشش کی گئی‘: جنید طارق کے بھائی کا دعویٰ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو توہین مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کو 30 روز میں کمیشن تشکیل دینے کا حکم دیا جسے چار ماہ میں اپنی کارروائی مکمل کرنے کا کہا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 15 جولائی 2025 کو توہین مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کو کمیشن تشکیل دینے کا حکم دیا (فائل فوٹو/ انڈپینڈنٹ اردو)

’میرا بھائی گذشتہ برس دسمبر میں ملائیشیا سے پاکستان واپس لوٹا تھا، اس کے ساتھ ایک لڑکی رابطے میں تھی اور اسے ملاقات کے لیے بلاتی رہتی تھی۔‘

یہ کہنا ہے 32 سالہ جنید طارق کے بھائی حمزہ کا جن کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے ہے۔ جنید طارق اس وقت توہینِ مذہب کے الزام میں لاہور جیل میں ہیں۔

حمزہ نے بتایا کہ جنید ملائیشیا میں درزی کا کام کرتے تھے اور اس سال کے شروع میں پاکستان آئے ہوئے تھے۔

حمزہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’دراصل وہ لڑکی اسے شادی کرنے کا کہتی تھی۔ اس کے وطن واپس آنے کے چند روز بعد 12 جنوری کو ایف آئی اے والے اٹھا لے گئے۔‘

حمزہ نے بتایا کہ ’ہماری والدہ کے انتقال کے بعد اس لڑکی نے اپنی والدہ کے ہمراہ تعزیت کے لیے آنے کا کہا۔ اس نے ہمارے گھر کے قریب کے پہنچ کر کہا کہ اسے لینے آ جائیں۔ بھائی کو وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ وہاں لڑکی نہیں بلکہ تقریباً 15 لوگ موجود تھے جنہوں نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ اور بعد ازاں جنید کا فون چھین کر لڑکی کے ساتھ کی گئی چیٹ ڈیلیٹ کر دی۔‘

حمزہ کے مطابق ’ان افراد کے ہمراہ ایف آئی اے کے دو افسران بھی تھے جو اسے لاہور کے علاقہ گلبرگ میں واقع ادارے کے دفتر میں لے گئے، ان افراد میں حسن معاویہ بھی شامل تھا۔ دفتر لے جانے کے بعد جنید پر تشدد بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ توہین مذہب کا اعتراف کرو۔ وہ افراد بھائی کو کہتے رہے کہ تم نے یہ جرم کیا ہے، اور اسے اپنی پسند کا بیان دلوانے کے لیے زبردستی کرنے کی کوشش کی جاتی رہی، لیکن وہ نہیں مانا، اور اس وقت وہ جیل میں موجود ہے۔‘

’ہنی ٹریپنگ‘ کے ذریعے توہین مذہب کے مقدمات

گذشتہ برس دو اکتوبر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مبینہ طور پر آن لائن ’ہنی ٹریپنگ‘ کے ذریعے توہین مذہب کے کیسز میں پھنسائے گئے سو سے زائد افراد کے ملک بھر سے آنے والے اہل خانہ نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا۔

یاد رہے کہ ہنی ٹریپنگ (Honey Trapping) ایک ایسا طریقۂ کار ہے جس میں کسی شخص کو محبت، جنسی تعلق یا رومانوی تعلقات کا جھانسہ دے کر اس سے خفیہ معلومات، مالی فائدہ، یا دیگر مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔

یہ احتجاج شہریوں کو مبینہ توہین مذہب کے الزام میں پھنسا کر انہیں تحویل میں لینے، گرفتار کرنے یا انہیں ہراساں کرنے کے خلاف اسلام آباد میں اپنی نوعیت کا پہلا مظاہرہ تھا۔

احتجاج میں شریک سو سے زائد متاثرہ افراد کے اہل خانہ شامل تھے جن کا کہنا تھا کہ ان کے رشتے داروں کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعہ ’ہنی ٹریپ‘ کیا گیا اور ان پر مبینہ توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا۔

مظاہرے میں شریک بیشتر افراد کے مطابق ان کے عزیزوں کو ’ایک لڑکی کے ذریعہ ہنی ٹریپ کیا گیا۔ جبکہ ان پر کیے جانے والے کیسز میں یا تو مخصوص وکلا شامل تھے یا پھر ایف آئی اے اہلکار۔‘

ان افراد کے بقول ’اس میں بلاسفیمی بزنس گینگ یا گروہ شامل تھا جس میں سرفہرست نام وکیل راؤ عبدالرحیم کا تھا۔‘

کچھ عرصہ بعد عدالت کی کارروائیوں میں بیشتر افراد کو ہنی ٹریپ کرنے میں ملوث لڑکی کی شناخت کومل اسماعیل کے نام سے ہوئی اور اس معاملہ میں بلاسفیمی بزنس گینگ کے وکیل راؤ عبدالرحیم کا نام بھی سامنے آیا۔

تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم

اس ضمن میں منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کو 30 روز میں کمیشن تشکیل دینے کا حکم دیا جسے چار ماہ میں اپنی کارروائی مکمل کرنے کا کہا گیا۔

جج سردار اعجاز اسحاق خان نے جاری کردہ فیصلے میں کہا کہ ’عدالت نے یہاں تک دیکھنا تھا کہ کیا کمیشن بنانے کے لیے مواد موجود ہے۔‘

فیصلے کے مطابق، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائمز انوسٹی گیشن ایجنسی نے بتایا کہ ’کومل اسماعیل کا شناختی کارڈ بلاک کروا دیا گیا، اس کے شناختی کارڈ پر چار سمز ہیں لیکن نومبر 2024 کے بعد یہ نمبر چل نہیں رہے۔‘

جج نے کہا، ’14 ستمبر کو پٹیشن دائر ہوئی اور نومبر میں کومل غائب ہو گئی۔ کومل ملک سے باہر نہیں گئی، پاکستان میں ہی موجود ہے۔‘

ایڈیشنل ڈائریکٹر این سی سی آئی اے نے عدالت کو بتایا اس ’لڑکی کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا ہے اور اسے تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔‘

ملزمان کے فون کے لیے ان پر کی گئی کالز اور پیغامات کی تحقیقات بھی ہو رہی ہیں۔ کیس کی آخری سماعت میں سیلولر نیٹ ورک کمپنیز کے وکیل نے کہا تھا کہ وٹس ایپ پر کی گئی کالز کی ریکارڈنگ (سی ڈی آر) نہیں ہوتی، موبائل کالز کی سی ڈی آر ہوتی ہے کہ مگر ان کی مدت بھی ایک سال تک ہوتی ہے۔

جس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا، ’اگر آئی ایس آئی کے پاس یہ اختیار ہے تو کمیشن اسے کہہ سکتا ہے، یہ لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے اس لیے انہیں کہا جا سکتا ہے۔ نیک محمد نے الزام لگایا ہے کہ ایمان نے اس سے رابطہ کر کے اسے ٹریپ کیا، اس میں دیکھا جانا تھا کہ کیا ایمان نے ملزم نیک محمد سے رابطہ کیا یا نہیں۔‘

تاہم تفصیلی فیصلے میں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ تحقیقاتی کمیشن کس طرح کام کرے گا۔ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے این سی سی آئی اے سے رابطہ کر کے کمیشن کے کام کا طریقہ کار جاننے کی کوشش کی تاہم متعلقہ افسران کی جانب سے تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے توہین مذہب بزنس کیس کے حوالے سے راؤ عبدالرحیم کے وکیل انتخاب شاہ سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا، تاہم خبر کی اشاعت تک ان کا جواب موصول نہیں ہو سکا۔

عرفات مظہر ’الائنس اگینسٹ بلاسفیمی پالیٹکس کے ڈائریکٹر اور محقق ہیں جو توہین مذہب اور سے جڑے دیگر موضوعات پر کام کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ’توہین مذہب کے الزامات کے ہتھیار بننے کے عمل‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک تاریخی پیش رفت کے طور پر ’آن لائن الزامات کی نوعیت، غلط استعمال اور نتائج پر تحقیق” کے لیے کمیشن کے قیام کی تجویز دی ہے۔

’تاہم اگر ایسا کمیشن واقعی کوئی معنی رکھتا ہے تو یہ صرف علامتی کارروائی یا سیاسی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا اس کمیشن کی بنیاد ’انصاف، خودمختاری، اور عوامی اعتماد‘ پر ہونی چاہیے اور اسے ’مواد تخلیق کرنے والے، پھیلانے والے، خاموش صارفین، اور جعل سازی کے شکار افراد‘ کے درمیان فرق سے اپنی شروعات کرنی ہو گی، کیونکہ ’موجودہ blanket criminalization کے عمل کو قانونی اور اخلاقی طور پر چیلنج کرنا ہو گا ورنہ کمیشن اپنا سب سے بنیادی فریضہ یعنی سچ کو سامنے لانے میں ناکام ہو جائے گا۔‘

عرفات کے مطابق ’عمومی طور پر ایسے الزام کے شکار افراد اکثر نوجوان، کمزور اور ڈیجیٹل اعتبار سے ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں کئی خاندان اور روزگار تباہ ہو گئے جبکہ کئی کمیونٹیز صدمے کا شکار ہوئیں۔‘

عرفات کہتے ہیں ان نقصانات کو ’مرکزی ثبوت کے طور پر اور نفسیاتی، قانونی اور معاشی لحاظ سے دیکھا جانا چاہیے۔ کمیشن کو ہنی پاٹس (کسی خاتون کے ذریعے لوگوں کو پھنسانا)، لوگوں کو شکار کرنے اور ڈیپ فیک جیسے نظام کو ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے اور مواد خود بنانے اور اسے تحویل میں رکھنے اور کسی دوسرے کو فارورڈ کرنے جیسے الزامات میں فرق کرنا ہو گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کیونکہ انٹرنیٹ کے ’ڈارک گوشوں سے تصاویر اور ویڈیوز جان بوجھ کر منظر عام پر لائی جا رہی ہیں تاکہ غصہ کو ہوا دی جائے، خوف پیدا کیا جائے اور جرم کا احساس پیدا کیا جائے۔ مگر یہ عزت نہیں اور نہ یہ عشق ہے۔” یاد رکھنا ہوگا کہ ’اللہ کی طرف سے عطا کردہ منصفانہ ٹرائل کے حق کا دفاع انٹرنیٹ کے تاریک گوشوں میں موجود توہین آمیز مواد کے دفاع کے مترادف نہیں ہونا چاہیے۔‘

بلاسفمی بزنس گینگ منظرعام پر کیسے آیا؟

گذشتہ برس جون 2024 وکیل عثمان وڑائچ کے پاس تقریباً 25 افراد پر مشتمل ایک متاثرہ گروہ ملاقات کے لیے آیا جو 100 سے زائد متاثرہ خاندانوں کی نمائندگی کر رہا تھا۔

ان افراد کے مطابق ان کے خلاف جھوٹے توہین مذہب کے مقدمات درج کیے گئے اور وہ عدالتوں میں ان مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، اور اس ضمن میں انہوں نے وکیل عثمان وڑائچ سے قانونی مدد کی درخواست کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے گئے تفصیلی بیان میں وکیل عثمان وڑائچ نے اس کیس کا پس منظر بتایا ہے کہ متاثرین کی تمام دستاویزات اور بیانات کا جائزہ لینے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ وہ شدید معاشرتی دباؤ میں تھے۔

عثمان کے مطابق متاثرین کی جانب سے دیے گئے ایک اہم دستاویز ان کی نظر سے گزری جو سپیشل برانچ کی جانب سے جنوری 2024 میں تیار کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ تھی۔

اس رپورٹ، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، تاہم اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی ہے، میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایک منظم نیٹ ورک جھوٹے توہین مذہب کے مقدمات درج کروا رہا ہے، جس کے مذموم مقاصد ہیں۔

اس رپورٹ سے متعلق وکیل عثمان وڑائچ نے بتایا کہ ’یہ نیٹ ورک لوگوں کو جھوٹے کیسز میں پھنساتا ہے تاکہ یا تو انہیں بلیک میل کیا جا سکے یا کوئی ذاتی یا مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ اس معاملے پر ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے تاکہ معاملے کی مکمل اور غیر جانبدارانہ طور پر تحقیقات ہو سکیں۔‘

یاد رہے اس دوران صحافتی ادارے ’فیکٹ فوکس‘ نے اس موضوع پر جولائی 2024 میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی۔

بعد ازاں اگست میں وکیل عثمان وڑائچ اور متاثرین کی جانب سے وفاقی حکومت، قانون و انصاف ڈویژن اور وزارت انسانی حقوق کو تین الگ الگ درخواستیں دائر کیں۔ دوسری جانب وہی درخواستیں سپریم کورٹ کے 19 ججز کو بھی دی گئیں جہاں معاملہ کا ’از خود نوٹس لیتے ہوئے اس سنگین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی معاملے کی تحقیقات کے حکم‘ کی استدعا کی گئی۔

وکیل نے بتایا کوئی باضابطہ جواب نہ آنے کے بعد ستمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی گئی جس میں ’75 سے زائد جھوٹے مقدمات کی تفصیلات، سپیشل برانچ کی رپورٹ اور فیکٹ فوکس کی رپورٹ شامل کی گئی۔‘

اس درخواست میں آزاد، شفاف اور بااختیار تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کی استدعا کی گئی تاکہ ’اس منظم نیٹ ورک کو سامنے لایا جا سکے اور جھوٹے توہین مذہب کے کیسز کا سد با کیا جا سکے۔‘

راؤ عبد الرحیم کیس میں نامزد ملزم کومل اسماعیل کے وکیل رہ چکے ہیں‘

وکیل عثمان وڑائچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ستمبر 2024 میں راولپنڈی کی مختلف عدالتوں میں چلنے والے توہین مذہب کے مقدمات میں ملوث 101 متاثرین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ’اس کیس کی پہلی سماعت 13 ستمبر 2024 کو ہوئی اور اس کے بعد تقریباً 42 سماعتیں ہوئیں۔‘

ان کے مطابق ’ان سماعتوں کے دوران مختلف شواہد اور انکشافات عدالت کے سامنے آئے۔ ان میں چار افراد راؤ عبد الرحیم، لیاقت کمبوہ جو دونوں وکیل ہیں، ایمان نامی خاتون جو بعد ازاں کومل اسماعیل کے نام سے سامنے آئیں، اور شیراز فاروقی کے خلاف سنگین الزامات سامنے آئے۔‘

عثمان نے بتایا کہ کیس کی سماعتوں کے دوران انکشاف ہوا کہ ’سپین کا ایک نمبر جو مبینہ طور پر ہنی ٹریپنگ کے لیے استعمال ہوا، راؤ عبد الرحیم کا نکلا۔ اگرچہ انہوں نے عدالت میں اعتراف کیا کہ یہ نمبر وہ ایف آئی اے کے حوالے کر چکے ہیں، تاہم سماعتوں میں سامنے آیا کہ اس کے باوجود اس کا استعمال جاری رہا، جس پر عدالت نے سوالات اٹھائے۔‘

ان کے مطابق کہ ’اسی طرح ایک کیس میں شیخوپورہ سے اغوا کیے گئے طالب علم کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ اغوا میں ملوث سفید کلٹس کار راؤ عبد الرحیم کی تھی۔ ایمان نامی لڑکی کا اصل نام بھی مختلف نکلا اور اس پر قتل کا مقدمہ درج تھا۔ اس کی ایف آئی آر اور دیگر ریکارڈ عدالت میں جمع کروائے گئے۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ راؤ عبد الرحیم اس لڑکی کے وکیل رہ چکے ہیں۔‘

یاد رہے فروری 2025 میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی لائیو ویڈیو ٹرانسمیشن کا حکم دیا ’تاکہ عدالت میں رش اور دباؤ کم ہو سکے۔‘

وکیل عثمان وڑائچ نے بتایا کہ ’کیس کے دوران متعدد مرتبہ راؤ عبد الرحیم، شیراز فاروقی، حافظ احتشام وغیرہ کی جانب سے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواستیں دی گئیں لیکن عدالت نے انہیں مسترد کر دیا اور پورا کیس جسٹس اعجاز اسحاق خان کی عدالت میں ہی سنا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان