’میکس‘ ایپ کیا روس میں جاسوسی کے لیے استعمال ہو گی؟

روس میں ہر نئے ڈیجیٹل آلے میں میکس نامی ایپ ہو گی، جسے روسی عوام کی نگرانی کی صلاحیت کو غیر معمولی حد تک بڑھانے کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

روسی سرکاری ایجنسی سپوتنک کی طرف سے تقسیم کی گئی پول کی اس تصویر میں، روس کے صدر ولادی میر پوتن 16 جولائی 2025 کو میگنیٹوگورسک میں آئرن اینڈ سٹیل پلانٹ کا دورہ کرتے ہوئے (اے ایف پی)

صرف دو ماہ میں، روس میں فروخت ہونے والے ہر نئے ڈیجیٹل آلے میں ایک نئی میسنجر ایپ ’میکس‘ ہو گی۔ اس کے نیلے اور سفید رنگ کے خوشنما لوگو کے پیچھے ایک ایسا سافٹ ویئر ہے، جسے ماہرین ماسکو کی جانب سے روسی عوام کی نگرانی کی صلاحیت کو غیر معمولی حد تک بڑھانے کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔

روسی ٹیک کمپنی وی کے کی جانب سے مارچ میں متعارف کروائی گئی یہ ایپ ستمبر 2025 سے روس میں فروخت ہونے والے تمام نئی ڈیوائسز میں لازمی طور پر انسٹال کی جائے گی۔ تاہم خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ ایپ ’جاسوسی پروگرام‘ کے طور پر کام کرے گی، جو روس کی سکیورٹی ایجنسی ایف ایس بی کو سخت نگرانی کا نظام قائم کرنے میں مدد دے گی۔

تجزیہ کاروں نے دی انڈپنڈنٹ کو بتایا کہ یہ ایپ نہ صرف پیغام رسانی اور ویڈیو کالز کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرے گی بلکہ یہ ایک وسیع تر انفارمیشن سسٹم ہوگا، جس میں حکومتی خدمات اور موبائل ادائیگیوں تک رسائی شامل ہوگی۔

چونکہ اس کے سرور روس میں واقع ہوں گے، لہٰذا یہ روسی قوانین کے تابع ہوگی، جو ایف ایس بی کو مخصوص معلومات تک رسائی کا حق دیتے ہیں۔
مے یاک انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر اور روسی سکیورٹی و سیاست کے ماہر مارک گیلیوٹی نے انڈ پنڈینٹ کو بتایا کہ 70 فیصد سے زائد روسی شہری واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں، اس لیے غالب امکان ہے کہ ماسکو جلد ہی اس ایپ پر پابندی عائد کرے گا تاکہ لوگوں کو ’میکس‘ استعمال کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

روسی اپوزیشن کے صحافی آندرے اوکن نے ’میکس‘ کو ماسکو کے ’ڈیجیٹل گولاگ‘ کے خواب کی بنیاد قرار دیا۔

ویب سائٹ ریپبلک کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں، جنہیں دی ٹائمز نے رپورٹ کیا، انہوں نے کہا: ’یہ ایک کنٹرول شدہ ماحول ہوگا ، جہاں حکام کو شہریوں کے فارغ وقت، محرکات اور خیالات پر مکمل اختیار رکھیں گے۔‘

تاہم روسی ٹیکنالوجی اور نگرانی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ایپ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ولادی میر پوتن کے حکم پر تیار کیا گیا، کا اجرا روسی ڈیجیٹل دنیا کی مکمل نگرانی کی صلاحیت بڑھانے کے لیے اٹھائے گئے مسلسل اقدامات کی تازہ ترین کڑی ہے۔

’ رشیاز وار آن ایوری باڈی‘ کے مصنف کیئر جائلز انڈ پینڈنٹ کو بتایا: ’یہ روس کی جانب سے انٹرنیٹ کی نگرانی کو معمول کا حصہ بنانے کا عمل ہے... یہ ایک طویل عمل کا تسلسل ہے۔ مغربی مواصلاتی ٹیکنالوجی سے لاحق تصور کیا جانے والا خطرہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ سے روسی سکیورٹی اداروں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔‘

جائلز نے وضاحت کی کہ روسی سکیورٹی ادارے دہائیوں سے اس بات پر پریشان رہے ہیں کہ روسی عوام گوگل، سکائپ اور ہاٹ میل جیسے غیر ملکی سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں، جن کی وجہ سے ان کے پیغامات پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

روسی ایکیورٹی ادارے مغربی مواصلاتی ٹیکنالوجی کو ہمیشہ سے ایک خطرے کے طور پر دیکھتے آئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ واٹس ایپ جیسے سروسز پر برسوں پابندیاں لگانے کی کوششوں کے بعد اب روسیوں کو میکس کی طرف راغب کرنے کا یہ تازہ اقدام دراصل ’محض ایک تکمیلی کارروائی‘ ہے۔

واٹس ایپ جیسی مقبول ایپس، جو میٹا کی ملکیت ہے اور جسے روس نے ایک انتہا پسند تنظیم قرار دیا ہے، اب ممکنہ پابندی کا سامنا کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جائلز نے کہا کہ یہ میسنجر ایپ اب تک روسی کریک ڈاؤن سے بچی رہی ہے، جو غالباً اس کے ملک بھر میں وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اعداد و شمار کے مطابق، روس میں 70 فیصد سے زائد لوگ اس ایپ کو استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا: متبادل فراہم کیے بغیر اس پر پابندی عائد کرنا شدید غیر مقبول اور خلل انگیز ہوگا۔‘

پروفیسر گیلیوٹی نے کہا: روسی ریاست بظاہر ترغیب دینے کے بجائے دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپنانے کی خواہاں نظر آتی ہے، جس کے تحت وہ واٹس ایپ پر پابندی عائد کرنے یا اس پر پابندیاں لگانے، اور ممکنہ طور پر مستقبل میں (میسجنگ سروس) ٹیلی گرام کو بھی نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، تاکہ لوگوں کو کسی طرح ’میکس‘ کی طرف راغب کیا جا سکے۔ چاہے یہ مکمل پابندی ہو یا صرف رفتار کم کرنا یا تکنیکی رکاوٹیں ڈالنا، میرا خیال ہے کہ واٹس ایپ روس میں شدید دباؤ میں آنے والا ہے۔‘

پروفیسر گیلیوٹی نے وضاحت کی کہ صارفین کو میکس کی طرف راغب کرنے کا روسی اپوزیشن اور حکومت مخالف سرگرمیوں پر کوئی نمایاں اثر پڑنے کا امکان نہیں، کیونکہ وہ واٹس ایپ کے بجائے پروٹون میل اور سگنل جیسی ’زیادہ انتہائی سے محفوظ‘ ایپس استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ یہ تبدیلی ’عام ناپسندیدگی کے اظہار‘ میں نمایاں فرق لا سکتی ہے۔ ’یہ وہ مقام ہے جہاں اس کا جمود پیدا کرنے والا اثر ہو سکتا ہے: وہ لوگ جو عام حالات میں ماسکو کے بارے میں ہلکی پھلکی تنقیدی باتیں پیغامات میں بھیجنے کے لیے آمادہ ہوتے، اب شاید دوبارہ سوچیں۔‘

روس نے 2018 میں ٹیلی گرام میسجنگ ایپ کو بلاک کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم یہ کوشش ناکام رہی اور اس سے روس میں ٹیلی گرام کی دستیابی پر عملی طور پر کوئی اثر نہیں پڑا، جس کے نتیجے میں دو سال بعد اسے باضابطہ طور پر کھول دیا گیا۔

تاہم روس کی ’انٹرنیٹ پروٹیکشن سوسائٹی‘ کے سربراہ میخائل کلیماروف نے دی ٹائمز کو بتایا کہ انہیں توقع ہے کہ ماسکو اس سال کے آخر تک اسے دوبارہ بند کرنے کی کوشش کرے گا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی