روہنگیا بحران کے 8 سال: پناہ گزینوں کی واپسی آج بھی غیر یقینی

نسل کشی کے بعد پیدل اور کشتیوں کے ذریعے میانمار سے فرار ہونے والے تقریباً 12 لاکھ روہنگیا مسلم تارکین وطن اس وقت بنگلہ دیش میں مقیم ہیں۔

روہنگیا پناہ گزین 14 مارچ 2025 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کے کاکس بازار میں پناہ گزین کیمپ کے دورے کے دوران احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

محمد رضوان اس وقت محض 21 سال کے تھے جب وہ 2017 میں میانمار کی فوج کے حملوں سے بچنے کے لیے سینکڑوں میل پیدل چل کر اپنی جان بچانے پر مجبور ہوئے۔ یہ وہ فوجی کارروائی تھی جسے اقوام متحدہ کے ماہرین نے نسل کشی قرار دیا ہے۔

آٹھ سال بعد بھی رضوان راتوں کو سکون سے نہیں سو پاتے۔ اب انہیں اپنی حفاظت کا نہیں بلکہ اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے مستقبل کا خوف ستاتا ہے جو بنگلہ دیش میں دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ میں رہ رہی ہیں۔

دو اور چار سال کی بیٹیوں کے والد رضوان ’دی انڈپینڈنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’تقریباً ایک دہائی ہونے کو ہے جب میں اپنے گاؤں کے سینکڑوں لوگوں کے ساتھ بہتر مستقبل کی تلاش میں یہاں آیا تھا لیکن حالات آج بھی ویسے ہی خراب ہیں۔ میری چھوٹی بیٹیوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔‘

بنگلہ دیش اس وقت تقریباً 12 لاکھ روہنگیا مسلم تارکین وطن کو پناہ دیے ہوئے ہے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ ان پناہ گزینوں میں سے تقریباً سات لاکھ لوگ 25 اگست 2017 سے شروع ہونے والی بڑی ہجرت کے دوران میانمار سے نکلے تھے۔

وہ لوگ پیدل اور کشتیوں کے ذریعے میانمار کے رکھائن صوبے سے فرار ہوئے جہاں اندھا دھند گولہ باری، قتل عام اور پورے کے پورے دیہاتوں کو جلانے کی کارروائیاں جاری تھیں۔

یہ فوجی آپریشن اس وقت ہوا جب نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی میانمار کی وزیرِاعظم (سٹیٹ کاؤنسلر) تھیں۔ 2019 میں انہوں نے نسل کشی کے الزامات پر میانمار کی فوج کا دفاع عالمی عدالت انصاف میں کیا لیکن 2021 میں انہی فوجی جرنیلوں نے انہیں اقتدار سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا۔

دی انڈپینڈنٹ کی ڈاکیومنٹری Cancelled: The Rise and Fall of Aung San Suu Kyi اسی دور کی کہانی اور ان کی قید کو بیان کرتی ہے۔

اگرچہ بنگلہ دیش اور اقوام متحدہ طویل عرصے سے روہنگیا پناہ گزینوں کی محفوظ واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن میانمار میں حالات اب بھی خراب ہیں۔ خاص طور پر رخائن صوبے میں لوگ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امداد میں کٹوتی نے ان مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

انٹرنیشنل ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (آئی ایف آر سی) کے ریجنل ڈائریکٹر الیگزینڈر متھیو کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی اس پالیسی کی وجہ سے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں خوراک کی کمی شدید ہو گئی ہے۔

وہ خبردار کرتے ہیں کہ ’اگر لوگوں کے پاس کھانے کو نہ ہوا تو کیمپ محفوظ نہیں رہیں گے اور اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘

خوراک کے ساتھ ساتھ صابن کی تقسیم بھی رک جائے گی جس سے صحت اور صفائی کے مسائل بڑھیں گے۔ 2025 میں تعلیمی خدمات بھی بند ہو جائیں گی جس سے تقریباً ڈھائی لاکھ بچے متاثر ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں: ’یہ ایک عالمی بحران ہے اور اس کا حل جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے پڑوسی ممالک کو نکالنا چاہیے۔‘

آئی ایف آر سی کیمپوں میں پناہ گزینوں کو امداد اور آگ سے محفوظ رہائشی ڈھانچے فراہم کرتا ہے تاکہ طوفانی موسم والے علاقوں میں آنے والی بار بار قدرتی آفات سے ان کی زندگیاں تباہ نہ ہوں۔

حال ہی میں کاکس بازار کے سب سے بڑے کیمپ کٹاپالونگ میں روہنگیا پناہ گزینوں نے میانمار کی خانہ جنگی اور واپسی کی غیر یقینی صورت حال پر احتجاج کیا۔

احتجاج میں شامل 19 سالہ نور عزیز نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم اس لیے یہاں ہیں کیونکہ میانمار کی سرکاری فوج اور ’اراکان آرمی‘ نامی ملیشیا نے ہماری برادری کے خلاف نسل کشی کی۔ ہم ان لوگوں کو یاد کرنے آئے ہیں جنہوں نے صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنی جان دی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں: ’ہم اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں لیکن برابر کے شہری حقوق کے ساتھ، جیسے میانمار کے دوسرے نسلی گروہوں کو حاصل ہیں۔‘

پچھلے 18 ماہ میں روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن امداد میں بڑی کٹوتیاں ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق 2025 میں پناہ گزینوں کی مدد کے لیے 25.6 کروڑ ڈالر درکار ہیں لیکن ابھی تک صرف 38 فیصد فنڈز کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

سات سالہ بیٹے کی ماں رقیہ بی بی کہتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک عارضی خیمے میں رہتی ہیں اور اپنے بیٹے کی تعلیم نہ ہونے پر فکرمند ہیں۔

ان کے بقول: ’میرا بیٹا سارا دن فارغ بیٹھا رہتا ہے۔ اگر اسے تعلیم اور روزگار کے مواقع نہ ملے تو کل کو وہ کوئی غلط راستہ اختیار کر سکتا ہے۔‘

وہ شکوہ کرتی ہیں کہ ‘کوئی ہماری زندگی کی فکر نہیں کرتا۔ کیا ہماری زندگیاں دنیا کے باقی لوگوں جتنی اہم نہیں؟‘

روہنگیا مسلمان دنیا کے سب سے بڑے بےوطن لوگ ہیں جن کے پاس نہ تو معاشی طاقت ہے اور نہ اپنی حفاظت کا کوئی ذریعہ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متھیو کہتے ہیں: ’یہ ایک بین الاقوامی ذمے داری ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ یہ صرف بنگلہ دیش کی ذمے داری نہیں ہے کیونکہ بنگلہ دیش نے سب سے اہم کام کر دیا ہے یعنی انہیں پناہ دے دی ہے۔‘

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ  محمد یونس نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک پناہ گزینوں کے لیے مزید وسائل نہیں دے سکتا اور عالمی برادری کو اس مسئلے کا پائیدار حل نکالنا ہو گا۔

محمد یونس کہتے ہیں: ’ہمیں کوئی ایسا عملی منصوبہ چاہیے جو ان کی واپسی کو ممکن بنا سکے۔ روہنگیا مسئلے کو عالمی ایجنڈے پر رکھنا ضروری ہے تاکہ جب تک وہ واپس نہ جائیں، ہم ان کی مدد کرتے رہیں۔’

2017  کے بعد سے بنگلہ دیش دو بار پناہ گزینوں کی واپسی کی کوشش کر چکا ہے اور عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ میانمار پر دباؤ ڈالے تاکہ پرامن ماحول بنایا جا سکے۔ بنگلہ دیش نے چین سے بھی مدد کی درخواست کی ہے۔

متھیو کہتے ہیں: ’یہ ایک اجتماعی ذمے داری ہے۔ مختصر مدت میں مالی امداد بھی ضروری ہے اور طویل مدت میں رضاکارانہ واپسی کا راستہ بھی نکالنا ہوگا۔ لیکن رکھائن میں بگڑتے حالات کے پیش نظر اصل منصوبہ اب کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے بنگلہ دیش چاہے گا کہ یہ ہدف عالمی سطح پر قائم رہے کیونکہ یہی سب کا مقصد ہونا چاہیے، خاص طور پر ان ممالک کا جن کا میانمار اور ’اراکان آرمی‘ ملیشیا پر اثر و رسوخ ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا