اقوام متحدہ کا معاہدہ: روہنگیا کے لیے آزاد نقل و حرکت کی ضمانت نہیں

یو این ایچ سی آر نے اکتوبر کے اوائل میں بنگلہ دیش کی حکومت کے ساتھ جزیرے پر سہولیات فراہم کرنے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے تھے تاہم اس معاہدے کے مندرجات کو ظاہر نہیں کیا گیا۔

بنگلہ دیش میں روہنگیا کے لیے ایک پناہ گزین کیمپ۔ (اے ایف پی فائل)

اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کے ساتھ ملک کے ایک دور دراز جزیرے پر روہنگیا پناہ گزینوں کو سہولیات فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن اس میں انہیں آزادانہ نقل و حمل کی ضمانت نہیں دی گئی۔ 

بنگلہ دیش کی حکومت نے پناہ گزینوں کے احتجاج اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں کی مخالفت کے باوجود تقریباً 19 ہزار سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کو سرحدی کیمپوں سے خلیج بنگال کے بھاسان چار نامی جزیرے میں منتقل کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس منتقلی کو جبری اور جزیرے کو کھلی جیل قرار دیا ہے۔

پناہ گزینوں نے دور دراز اور اکثر سیلاب کا سامنا کرنے والے اس جزیرے اور کاکس بازار کے قریب بنگلہ دیش کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ کے درمیان نقل و حرکت کی آزادی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ حالیہ مہینوں میں درجنوں روہنگیا پناہ گزین بوسیدہ کشتیوں پر فرار ہونے کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ذیلی ادارے یو این ایچ سی آر نے اکتوبر کے اوائل میں بنگلہ دیش کی حکومت کے ساتھ جزیرے پر سہولیات فراہم کرنے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے تھے تاہم اس معاہدے کے مندرجات کو ظاہر نہیں کیا گیا۔

نو اکتوبر کو جاری ایک بیان میں ایجنسی نے کہا کہ اس معاہدے میں ’پناہ گزینوں کے تحفظ،، انہیں تعلیم اور ہنر سکھانا، معاش اور صحت کے اہم شعبے شامل ہیں اور انہیں میانمار واپس بھیجنے کے لیے بہتر طور پر تیار کیا جائے گا۔

بنگلہ دیشی حکومت کے ترجمان اس معاہدے پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے لیکن ایک حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ پناہ گزینوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی ضرورت نہیں ہے۔

عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہم انہیں نقل و حرکت کی آزادی کیوں دیں گے؟ ہم ان کو ضرورت کی ہر چیز مہیا کر رہے ہیں۔ انہیں کیمپوں میں رہنا پڑے گا جب تک وہ واپس میانمار نہیں چلے جاتے۔‘

بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں مزید 81 ہزار مہاجرین کو اس جزیرے پر منتقل کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روئٹرز نے معاہدے کی ایک کاپی دیکھی ہے جس میں تحریر ہے کہ اقوام متحدہ کو روہنگیا آبادی تک ’بلا روک ٹوک رسائی‘ کی اجازت ہوگی اور مزید نقل مکانی رضاکارانہ ہوگی۔‘

لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ جزیرے اور بنگلہ دیش کی سرزمین کے درمیان کوئی بھی سفر صرف ’ضرورت کے مطابق‘ ہوگا جس کی حتمی تفصیلات اقوام متحدہ اور بنگلہ دیش کے درمیان طے کی جائیں گی۔

اس معاہدے میں روہنگیا کے لیے ’جبری طور پر بے گھر ہونے والے میانمار کے شہری/پناہ گزین‘ کہا گیا ہے جو کہ بنگلہ دیش کی جانب سے انہیں پناہ گزین تسلیم نہ کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈھاکہ نے 1951 کے پناہ گزین کنونشن پر بھی دستخط نہیں کیے جو روہنگیا کو پناہ گزین کا درجہ دیتا ہے۔

کھلی جیل

معاہدے کی تحقیق کرنے والی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’فورٹیفائی رائٹس‘ نے جمعے کو ایک بیان میں اقوام متحدہ اور بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاہدے پر نظر ثانی کریں تاکہ بنگلہ دیشی سرزمین اور جزیرے کے درمیان نقل و حرکت کی آزادی دی جا سکے۔

گروپ کے ریجنل ڈائریکٹر اسماعیل وولف نے کہا: ’یو این ایچ سی آر کی جانب سے جزیرے پر انسانی جانیں بچانے کے لیے سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے لیکن ایجنسی کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ اس معاہدے کے ذریعے اسے  پناہ گزینوں کے لیے جیل نہیں بنا رہی۔‘

جزیرے پر ایک پناہ گزین نے روئٹرز کو بتایا کہ جزیرے پر زندگی مشکل تھی۔

انتقام کے خوف سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا: ’جو لوگ یہاں رہ رہے ہیں وہ (بنگلہ دیش کے دیگر کیمپوں) میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے نہیں جا سکتے۔ روہنگیا افراد کے فرار ہونے کی کوشش کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔‘

ایک اور پناہ گزین نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا: ’ہمیں نقل و حرکت کی آزادی کا حق نہیں ہے۔ ہم یہاں تک محدود ہیں لیکن کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہے۔ ہماری قسمت میں یہاں پھنسے رہنا ہے۔‘

بنگلہ دیش کی سرزمین پر قائم کیمپوں میں مقیم دیگر پناہ گزینوں کو بھی اپنے کیمپ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ نقل و حرکت پر ان پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

میانمار سے فرار ہونے والے دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا بنگلہ دیش میں رہتے ہیں۔ 2017 میں میانمار کی فوجی کے کریک ڈاؤن میں پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کی قتل و غارت اور اجتماعی ریپ شامل تھی اور جسے اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ یہ نسل کشی کے ارادے سے کیا گیا تھا۔

میانمار نے نسل کشی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ پولیس چوکیوں پر حملہ کرنے والے باغیوں کے خلاف ایک ’جائز‘ مہم چلا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا