شنگھائی تعاون تنظیم اعلامیہ: ایک رخ یہ بھی ہے

پہلگام اور جعفر ایکسپریس، ہر دو واقعات کی ایک جیسے الفاظ کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔ اس لیے اس سے آگے بڑھ کر اعلامیے کے ان نکات پر توجہ دینی چاہیے جہاں بین السطور ایک جہان معنی آباد ہے اور ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے۔

روس کی سرکاری ایجنسی سپوتنک کی طرف سے تقسیم کی گئی اس پول تصویر میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو، پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، ازبکستان کے صدر شوکت مرزیوئیف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن، روس کے صدر ولادی میر پوتن، چین کے صدر کازاکائین پنگ، انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی، کرغزستان کے صدر سدیر جاپاروف اور ایران کے صدر مسعود پیزشکیان یکم ستمبر 2025 کو تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران ایک گروپ فوٹو میں دیکھے جا سکتے ہیں (اے ایف پی)

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اعلامیے پر بحث اس ایک نکتے میں سمٹ آئی ہے کہ پاکستان کو کیا حاصل ہوا اور انڈیا کو کیا ملا؟ تاہم اس اعلامیے میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، جو بہت اہم ہے مگر نظر انداز ہو رہا ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے حوالے سے یہ ایک متوازن دستاویز ہے۔ نہ کسی کی جیت ہے، نہ کسی کی ہار۔

پہلگام اور جعفر ایکسپریس، ہر دو واقعات کی ایک جیسے الفاظ کے ساتھ مذمت کی گئی ہے، اس لیے اس سے آگے بڑھ کر اعلامیے کے ان نکات پر توجہ دینی چاہیے جہاں بین السطور ایک جہان معنی آباد ہے اور ہمیں دعوتِ فکر دے رہا ہے۔

اعلامیے کا متن بڑا دلچسپ ہے۔ پہلی نظر میں دیکھیں تو لگتا ہے کچھ یورپی اقوام مل بیٹھی ہیں اور یہ ان کا جاری کردہ اعلامیہ ہے۔ ابتدا ہی سے اقوام متحدہ کی تعریف میں زمین و آسمان کے جو قلابے ملائے گئے وہ تو قابلِ غور ہیں ہی، اس سے بھی اہم وہ قصیدہ ہے جو دوسری عالمی جنگ میں امن پسند اقوام کی اس عظیم فتح پر کہا گیا ہے، جس نے ’انسانیت کی پرامن ترقی کی ضمانت‘ دی۔

تو کیا اس سے یورپی اقوام کو کوئی خاص پیغام دینا مقصود تھا؟ یہ سوال بڑا اہم ہے۔

اعلامیے میں، اوپر نیچے، دائیں بائیں اقوام متحدہ، اس کے فضائل اور محاسن ہیں۔ اقوام متحدہ کے حوالے یہ اس قدر تکرار بھری ’سینس آف اونر شپ‘ بھی بڑی ذو معنی ہے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ اس میں بھی یورپ کے لیے کچھ خاص سندیسہ ہو کہ دیکھو امریکہ تو اقوام متحدہ سے پیچھے ہٹ رہا ہے اور خود کو بہت بڑی چیز سمجھتے ہوئے عملاً اقوام متحدہ کی نفی کرنے پر تلا ہے، لیکن ہم اقوام متحدہ ہی کے چارٹر کے ساتھ کھڑے ہیں ؟

تو کیا امریکہ کو کہنی مارتے ہوئے یورپ کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہم کچھ الگ نہیں کرنے جا رہے۔ ہم اقوام متحدہ ہی کے ساتھ جڑے ہیں اور ہم آپ جیسی امن پسند اقوام کے لیے ’چشم ما روشن دل ما شاد‘ کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔

اس پر امریکہ کا رد عمل بھی قابلِ غور ہے۔ وہ بھی اسی طرح بین السطور جواب آں غزل کہتا تو یہ اس کے اعتماد کا اظہار ہوتا لیکن اس نے جس شدت سے رد عمل دیا ہے وہ بتا رہا ہے کہ معاملات اس کی گرفت سے پھسل رہے ہیں۔

یورپ سے قربت کی اس خواہش کے لطیف منظرنامے کے ساتھ ایک ضمنی سوال بھی البتہ اہم ہے۔ اعلامیے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے تاریخی اسباق کو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔

آدمی پڑھ کر سوچتا ہے کہ کیا مشرق وسطیٰ کے اس تاریخی سبق کو بھی یاد رکھا جا سکتا ہے، جو اسی عالمی جنگ کے بعد، ان ہی امن پسند اقوام نے، فلسطین کو دیا؟

اعلامیے میں انسداد دہشت گردی کی کاوشوں میں دہرے معیار پر بھی سخت تنقید کی گئی یعنی اقوام متحدہ کی دو ویٹو پاورز اور اس کے ساتھ ایس سی او کے دیگر ممالک کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اب تک کی ان کاوشوں پر ایک طرح کا عدم اعتماد ہے، جو بنیادی طور پر امریکی سرپرستی میں کی گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ چند ہی روز قبل پاکستان نے اقوام متحدہ میں ایک سوال اٹھایا تھا کہ دہشت گرد قرار دیے گئے تمام لوگ مسلمان کیوں ہیں؟ کیا باقی مذاہب میں دہشت گرد نہیں ہوتے یا نظر کرم صرف مسلمانوں پر ہوتی ہے؟

اعلامیے میں تین چیزوں کی مذمت کی گئی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے مشترکہ عزم کا اظہار کیا گیا ہے: دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی، سوال یہ ہے کہ یہ انتہا پسندی کیا ہے؟ کیا اس کا تعلق سنکیانگ کی صورت حال سے ہے؟

اس سوال کا جواب شاید اعلامیے کے اندر ہی موجود ہے، جہاں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے سنکیانگ کو خصوصی طور پر زیر بحث لایا گیا، تو کیا چین نے اپنی داخلی پالیسی کو علاقائی بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے؟

اعلامیے میں کہا گیا کہ رکن ممالک نے بین الاقوامی اور علاقائی متنازع مسائل کو گروہ بندی اور محاذ آرائی کی سوچ کے ذریعے حل کرنے کی مخالفت کو دہرایا۔

کیا اسے پاکستان، انڈیا اور انڈیا چین تعلقات کے حوالے سے خوش آئند پیش رفت سمجھا جا سکتا ہے یا یہ بے روح سے اقوال زریں ہی تصور کیے جائیں گے؟

ایک اور اہم نکتہ یہ مطالبہ تھا کہ انٹرنیٹ کے بندوبست میں تمام ممالک کو مساوی حقوق حاصل ہونےچاہییں اور انہیں سائبر خودمختاری حاصل ہونی چاہیے۔

کیا اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ آگے چل کر اس خطے میں سوشل میڈیا پر آزادیوں کی صورت حال شاید وہ نہ رہے جو اب ہے اور یہ شاید مزید سکڑ جائے؟

یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جو ممالک اپنے صارفین کو انٹرنیٹ تک رسائی کے باقی دنیا جیسے مساوی حقوق نہ دے رہے ہوں، وہ ممالک دنیا سے انٹرنیٹ کے بندوبست میں مساوی حقوق کیسے لیں گے اور ان کی نوعیت کیا ہو گی؟

اعلامیے میں مقامی کرنسیوں میں لین دین کی بات بھی کی گئی۔ بات پہلے ہی پیٹرو ڈالر سے پیٹرو یوآن کی جانب بڑھ رہی ہے، ادائیگیوں کا نیا نظام وجود میں آ چکا ہے۔ ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے جس کی بنیاد جنگ اور تخریب نہیں، معیشت ہے۔

دنیا تو مفاد ہی کی ہے (اور یہ کوئی برائی بھی نہیں) تاہم یہ خطہ اگر معاشی مفادات کی تلاش میں سارے اختلافات کے باوجود اشتراک کار کی ایک ڈوری میں بندھ گیا تو اس کا مستقبل حیران کن ہو گا۔

ایک آخری  سوال یہ ہے کہ دنیا کی قیادت کے لیے کیا صرف معاشی اور عسکری قوت کا ہونا ہی کافی ہے یا اس کے لیے اپنی سماجی اور تہذیبی قوت بھی درکار ہوتی ہے؟

یعنی کیا اس کام کے لیے حکومتی سطح پر مختلف ممالک میں روابط کافی ہوتے ہیں یا اس کے لیے ایک ایسی تہذیب بھی چاہیے جو دوسروں سے مکالمہ کر سکے، انہیں کسی حد تک اپنے اندر سمو سکے، اجنبیت کو ختم کر سکے۔

چین اور روس کا تہذیبی پس منظر تو بہت قدیم اور گہرا ہے لیکن کیا چین اور روس کی تہذیب میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ اجنبیت کی دیواروں کو گراتے ہوئے باقی تہذیبوں کے لیے ساتھ با معنی اشتراکِ عمل کر سکے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر