کراچی: یو ایس بی سے سراغ ملنے پر 100 بچوں پر جنسی تشدد کا ملزم گرفتار

پولیس کے مطابق جمعرات کو گرفتار ہونے والا مشتبہ شخص گذشتہ نو سال کے دوران تقریباً 100 سے زیادہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے اور تازہ ترین واقعہ چار ستمبر کو سامنے آیا تھا۔

17 ستمبر 2020 کو لاہور میں لی گئی اس تصویر میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام خواتین ریپ کے بڑھتے واقعات کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں (اے ایف پی)

کراچی پولیس نے ایک جوس  فروش کو یو ایس بی ڈیوائس ملنے کے بعد گرفتار کیا ہے جس میں متاثرہ بچوں پر جنسی تشدد کی سینکڑوں ویڈیوز محفوظ کی گئی تھیں۔

ایس ایچ او تھانہ ڈیفینس نبی آفریدی کے مطابق کراچی کے علاقے قیوم آباد میں رواں ہفتے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جس پر بچوں کے جنسی استحصال کا الزام ہے۔

مشتبہ شخص  مبینہ طور پر گذشتہ نو سال کے دوران تقریباً 100 سے زیادہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے دوران جانچ کے لیے پیش کی گئی چار میں سے کم از کم تین کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد کی تصدیق ہو چکی ہے۔

پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’13  ستمبر کی شام چار بچیاں ہسپتال لائی گئی تھیں جن کی عمریں سات سے 12 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے تین پر جنسی تشدد کے شواہد ملے ہیں۔‘

ڈاکٹر سمعیہ نے مزید بتایا کہ وہ  کم بچوں کے ساتھ ہراسانی اور جنسی تشدد کے حوالے سے ’چائلڈ سیکچول ابیوز رجسٹری‘ تیار کررہی ہیں جس میں چائلڈ اییوز اینڈ چائلڈ سیکچول ابیوز دونوں شامل ہوں گے جس کی رپورٹ دسمبر تک سامنے آجائے گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'اب جو کیسز (مثلاً ہراسانی، جنسی تشدد یا دیگر سماجی جرائم) زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام میں آگاہی بڑھ گئی ہے۔ لوگوں کو اب یہ معلوم ہے کہ کہاں جانا ہے، کیسے شکایت درج کرانی ہے اورسوشل میڈیا کی بدولت بھی یہ کیسز زیادہ نمایاں ہو جاتے ہیں کیونکہ جب کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے تو وہ فوراً سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتا ہے جس سے لوگوں کو جلدی پتہ چل جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر سمعیہ کے بقول: 'بچوں کی حفاظت صرف ماں باپ کی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ اساتذہ، محلے والے اور سکولز سب کو مل کر آگاہی دینی چاہیے اور نظر رکھنی چاہیے تاکہ بچے محفوظ رہیں۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے خلاف اب تک چھ مقدمات والدین کی مدعیت میں درج کیے جاچکے ہیں۔

ایس ایچ او ڈیفینس تھانہ نبی آفریدی نے اس پورے واقعے کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ملزم نو سال سے کم عمر بچیوں کو جنسی ہراسانی اور زیادتی کا نشانہ بنا رہا تھا۔‘

یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب مبینہ متاثرین میں سے ایک نے مشتبہ شخص سے یو ایس بی ڈرائیو لی جس میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی سینکڑوں ویڈیوز ملیں اور اس نے پولیس کو ان ویڈیوز کے بارے میں آگاہ کیا۔

ایس ایچ او نبی آفریدی نے بتایا کہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے شبیر احمد نامی شخص کو، جو اصل میں ایک جوس فروش ہے، رواں ہفتے جمعرات کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تفتیش کاروں نے بتایا کہ انہوں نے ان کی ڈیوائسز سے 400 سے زائد کلپس برآمد کیے جن میں پانچ سے 12 سال کی عمر کی 100 سے زائد بچیوں پر جنسی تشدد کیا گیا جب کہ ان میں سے کچھ کو کئی سالوں میں بار بار نشانہ بنایا گیا تھا۔‘

پولیس کے مطابق وہ 2016 سے قیوم آباد علاقے میں تھوڑی سی رقم کا لالچ دے کر بچوں کو بھلا پھسلا کر اپنی بند دکان میں لے جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایس ایچ او کو دیے گئے بیان کہ مطابق ’ابتدا میں ملزم اپنی جوس کی دکان پر یہ گھناؤنا کام کرتا تھا لیکن جب یہ سلسلہ بڑھتا گیا تو اس نے ایک کمرے کا مکان اسی علاقے میں کرائے پر لیا۔‘

مشتبہ شخص سے برآمد ہونے والی ایک ڈائری میں 85 سے زائد متاثرہ بچوں کے نام اور ریکارڈ موجود ہیں، جن میں ان کی نسل کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تازہ ترین واقعہ رواں ماہ کی چار تاریخ کو ہوا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ کم از کم چھ خاندانوں نے اب تک ایف آئی آر  درج کرائی ہیں اور مزید کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ طبی معائنے جاری ہیں۔

ایف آئی آر سیریل نمبر 6621 ستمبر کی چار تاریخ کو  ہونے والے واقعہ پر والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔

مزید ایف آئی آرز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشتبہ شخص بچے اور بچیوں دونوں کو اس گھناؤنے فعل کا نشانہ بناتا رہا ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ’ملزم پر اب پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 376(3) عائد کی گئی ہے جس میں نابالغ کے ساتھ زیادتی کے جرم میں سزائے موت یا عمر قید ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے تفتیش کے لیے پانچ روزہ ریمانڈ پر پولیس کو دے دیا۔‘

پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی بدستور وسیع ہے۔ ’ساحل‘ نامی این جی او کے جاری کردا اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں ایسے 3,364 واقعات ریکارڈ ہوئے جب کہ سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO) نے 2019 اور 2023 کے درمیان 5,398 واقعات درج کیے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان