قطر حملہ: مسلم دنیا کو ناقابل تسخیر دفاع کے لیے متحد ہونا ہو گا

دوحہ پر اسرائیلی حملے نے اس خطے میں احساس تحفظ کو شدید دھچکا پہنچایا ہے جب کہ اس نے خلیجی ممالک کو پالیسی پر ازسرنو غوروفکر پر بھی مجبور کیا ہے۔

قطر نیوز ایجنسی (کیو این اے) کی جانب سے جاری کردہ اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں 15 ستمبر 2025 کو دوحہ میں منعقدہ عرب-اسلامی ہنگامی سربراہی اجلاس کے دوران رہنماؤں، سربراہانِ مملکت اور دیگر حکام گروپ فوٹو کے لیے پوز دے رہے ہیں (اے ایف پی)

گذشتہ ہفتے دوحہ میں حماس کی سیاسی قیادت کے کمپاؤنڈ پر اسرائیلی فضائی حملہ جیو پولیٹکل لحاظ سے ایک غیرمعمولی واقعہ تھا اور اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔

یہ پہلا موقع ہے جب اسرائیل نے امریکہ کے ایک قریبی اتحادی کو نشانہ بنایا ہے۔ امریکی قیادت نے اس حملے پر لاعلمی کا اظہار کیا ہے لیکن دنیا یہ ماننے کو تیار نہیں کہ واشنگٹن کو اس بارے میں کوئی اطلاع نہ تھی۔ اسرائیلی اب یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حماس پر حملہ کیا، قطر پر نہیں، مگر اس وضاحت کو کوئی قبول نہیں کر رہا۔

قطر نے غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں مصر اور امریکہ کے ساتھ ایک کلیدی ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ دوحہ کا کردار اس لیے بھی اہم تھا کہ حماس کے ساتھ اس کے بہتر تعلقات ہیں اور اسے عالمی تنازعات میں ثالثی کا وسیع تجربہ ہے۔

قطر نے اس سے قبل افغانستان میں طویل تنازعے کے خاتمے کے لیے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان کامیاب ثالثی کی تھی۔ خلیج کا یہ چھوٹا سا ملک اپنی متوازن قیادت کے باعث دنیا بھر میں ایک مؤثر ’سافٹ پاؤر‘ کا مقام بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ ایک عالمی شہرت یافتہ ٹی وی چینل، دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں شمار ہونے والی فضائی کمپنی اور فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی نے حالیہ برسوں میں قطر کو بین الاقوامی برادری میں زبردست مقبولیت اور عزت بخشی ہے۔

عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ عرب خلیجی ممالک جیو پولیٹکل حالات کے اعتبار سے محفوظ ہیں۔ خلیج میں سکیورٹی کے انتظامات نے عالمی معیشت کے لیے توانائی وسائل کی آزادانہ ترسیل کو یقینی بنایا ہوا تھا مگر دوحہ پر اسرائیلی حملے نے اس احساسِ تحفظ کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس اہم پیش رفت نے خطے میں پالیسی پر ازسرنو غوروفکر کا ایک نیا مرحلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ خطے اور اس سے باہر قطر کے ساتھ وسیع ہمدردی پائی جاتی ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آلثانی کو فون کر کے اس حملے کو علاقائی استحکام پر حملہ قرار دیا۔ اس کے بعد وہ ذاتی طور پر دوحہ گئے تاکہ قطر سے اظہارِ یکجہتی کرسکیں۔ پاکستان کی درخواست پر ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تاکہ اس سنگین صورت حال پر غور کیا جا سکے۔ اجلاس میں قطری وزیراعظم نے بھی خطاب کیا اور پاکستان کے مستقل مندوب نے حملے کی دوٹوک اور سخت الفاظ میں مذمت کی۔

پاکستان قطر میں عرب لیگ اور او آئی سی کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنے میں بھی شریک تھا تاکہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے خلاف اجتماعی اقدامات پر غور کیا جا سکے۔

پاکستان طویل عرصے سے خلیجی سکیورٹی ڈھانچے کا حصہ رہا ہے اور خطے میں بحری سلامتی کے انتظامات میں سرگرم کردار ادا کرتا رہا ہے۔

دوحہ پر حملے کے معاملے میں امریکہ کا رویہ قدرے مبہم رہا ہے حالانکہ اس نے سلامتی کونسل میں ان حملوں کی مذمت کی۔ اس صورت حال نے اعتماد کے خلا کو جنم دیا ہے۔ یاد رہے کہ چین نے گذشتہ سال ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی میں مثبت کردار ادا کرکے خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خلیج میں تازہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں چین اور روس کا اثر و رسوخ مزید بڑھے گا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ امریکہ جلد ہی خطے سے نکل جائے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ اسے خطے کے رہنماؤں کا اعتماد حاصل کرنے میں دشواری ہوگی خصوصاً ٹرمپ کی موجودہ مدت صداررت میں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2012 میں حماس کا سیاسی دفتر دوحہ میں امریکی درخواست پر ہی کھولا گیا تھا تاکہ ایک مؤثر بیک چینل رابطہ قائم کیا جا سکے۔

کچھ غیر تجربہ کار تجزیہ کاروں نے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کے غصے کا اگلا ہدف ہوسکتا ہے لیکن اس قیاس آرائی انتہائی کمزور ہے۔

دوحہ میں جس مشترکہ ردعمل پر غور کیا جا رہا ہے اسے سوچ سمجھ کر، حقیقت پسندانہ اور مؤثر ہونا چاہیے۔ اس میں اسرائیلی کمپنیوں کے بائیکاٹ کے ذریعے معاشی اقدامات، اسرائیلی طیاروں کے لیے فضائی حدود کی بندش اور اجتماعی سفارتی اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ فوری اور قلیل المدتی اقدامات ہوں گے۔ طویل المدتی اقدامات دہائیوں پر محیط ہوں گے جن میں مسلم ممالک کی تکنیکی ترقی، بہتر تعلیم کے ذریعے ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ دفاعی تربیت اور دفاعی پیداوار میں بہتری کے لیے پاکستان ترکی کے ساتھ کردار ادا کر سکتا ہے۔

وقت بہت قیمتی ہے، مسلم دنیا کو اپنے تحفظ کے لیے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ اسے فوری اور طویل مدتی منصوبہ بندی کرنی ہوگی تاکہ اس کا دفاع اتنا مضبوط ہو جائے کہ کوئی کمزوری باقی نہ رہے۔

بشکریہ عرب نیوز

مصنف جاوید حفیظ سابق پاکستانی سفارتکار ہیں جنہیں مشرق وسطیٰ کے حوالے سے وسیع تجربہ ہے۔ وہ پاکستانی اور خلیجی اخبارات میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں اور دفاعی اور سیاسی تجزیہ کار  بھی ہیں۔
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر