ڈاکٹروں کی خوشخطی کو نصاب میں شامل کیا جائے، انڈین عدالت کی ہدایت

’کسی انسان کی طبی حالت جاننے کا حق زندگی کے حق کے ساتھ لازم و ملزوم طور پر جڑا ہے۔‘ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ

 

انڈین ریاست کرناٹک کے داراحکومت بنگلورو سے تقریباً 700 کلومیٹر دور ضلع رائچور کے گاؤں تلماری میں ڈاکٹر متاثرین سیلاب کے کیمپ میں مریض خاتون کے نسخہ تحریر کر رہا ہے (دیبیانگ شو سرکار / اے ایف پی)

انڈین عدالت نے میڈیکل کالجوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے نصاب میں خوشخطی کے اسباق بھی شامل کریں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ ڈاکٹر صاف اور پڑھے جانے والے نسخے تحریر کریں۔

قانونی خبروں کے پورٹل لائیولا کے مطابق پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ واضح اور پڑھے جا سکنے والی طبی نسخے کا حق، انڈین آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت زندگی کے بنیادی حق کا حصہ ہے۔ آرٹیکل 21 زندگی اور شخصی آزادی کے حق کا تحفظ کرتا ہے۔

جسٹس جسگرپریت سنگھ پوری نے کہا کہ ’کسی انسان کی طبی حالت جاننے کا حق زندگی کے حق کے ساتھ لازم و ملزوم طور پر جڑا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ خراب لکھائی سے پیدا ہونے والا ابہام جانوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

جسٹس پوری شمالی ریاست ہریانہ کے ایک فوجداری مقدمے کی سماعت کر رہے تھے۔ وہ متاثرہ شخص کی میڈیکو لیگل رپورٹ پڑھنے سے قاصر رہے۔

اخبار دی انڈین ایکسپریس کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’یہ عدالت کے ضمیر کو جھنجھوڑ گیا کیوں کہ ایک لفظ یا حرف تک پڑھا نہیں جا سکا۔ یہ نہایت حیران کن اور افسوسناک ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے دور اور کمپیوٹر تک رسائی کے باوجود، حکومتی ڈاکٹر میڈیکل ہسٹری اور نسخے اب بھی ہاتھ سے لکھتے ہیں جنہیں شاید چند کیمسٹوں کے سوا کوئی نہیں پڑھ سکتا۔‘

جج نے نیشنل میڈیکل کمیشن کو ہدایت کی کہ طبی نصاب میں صاف لکھائی کی تربیت شامل کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ڈیجیٹل نسخے عام نہیں ہو جاتے، تمام ڈاکٹر طبی نوٹس بڑے حروف میں لکھیں۔

عدالت نے مزید ہدایت کی کہ مرکزی حکومت کلینیکل اسٹیبلشمنٹس ایکٹ کے تحت ہسپتالوں اور کلینکس کے لیے قواعد تیار کرنے کی رفتار تیز کرے۔ قواعد میں یہ شق شامل ہو کہ مریضوں کے ریکارڈ صرف کاغذ پر لکھنے کی بجائے الیکٹرانک طور پر محفوظ کیے جائیں۔

 ٹائمز آف انڈیا کے مطابق کچھ انڈین ہسپتال پہلے ہی ڈیجیٹلائزیشن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ چندی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، جہاں میڈیکو لیگل رپورٹ تیار ہوئی، نے عدالت کو بتایا کہ وہ ڈاکٹر ڈیسک نامی نظام متعارف کرا رہا ہے جس کے ذریعے موبائل ایپ استعمال کرتے ہوئے ایسے ٹائپ شدہ ای نسخے تیار کیے جائیں گے جنہیں پڑھا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے ادارے کو یہ نظام ترجیحاً دو برس کے اندر نافذ کرنے کی ہدایت کی۔ فیصلہ 27 اگست کو سنایا گیا۔

جسٹس پوری نے کہا کہ عدالت ڈاکٹرز اور طب کے پیشے کا انتہائی احترام کرتی ہے اور اسے قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے ’لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ انڈیا کے عوام کے بنیادی حقوق کا مناسب طور پر تحفظ یقینی بنایا جائے۔‘

عدالت کا کہنا تھا کہ ’پڑھی نہ جا سکنے والی تحریر کا مسئلہ ایک خلا پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں تحریر غیر مؤثر ہو جاتی ہے اور ڈیجیٹل صحت کی جدتوں کے ممکنہ فوائد مزید محدود ہو جاتے ہیں۔‘ 

ڈاکٹرز کی پڑھی نہ جا سکنے والی تحریر پر بے شمار لطیفے موجود ہیں لیکن صحت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس کے المناک نتائج ہو سکتے ہیں۔ انڈیا اور بیرون ملک، لاپروائی سے لکھے گئے نسخوں کی وجہ سے غلط ادویات دیے جانے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر دلیپ بھانوشالی نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا: ’یہ جانی پہچانی حقیقت ہے کہ بہت سے ڈاکٹرز کی لکھائی خراب ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر میڈیکل پریکٹیشنرز بہت مصروف ہوتے ہیں، خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میں جہاں مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی ایسوسی ایشن نے ڈاکٹرز سے کہا کہ ’نسخے بڑے حروف میں لکھیں تاکہ وہ مریضوں اور کیمسٹ دونوں کے لیے قابل مطالعہ ہوں۔ جو ڈاکٹر دن میں سات مریض دیکھتا ہے وہ یہ کر سکتا ہے، لیکن اگر آپ دن میں 70 مریض دیکھیں تو آپ یہ نہیں کر سکتے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا