عطیہ فیضی اور فیضی رحمین ہمارے فنونِ لطیفہ کی تاریخ کے دلچسپ کردار ہیں۔ دونوں ہی نے پہلے پہل ہندوستان میں فنِ مصوری سے لے کر موسیقی اور ادب تک سب کی آبیاری کی۔ یہ سلسلہ دونوں نے پاکستان میں بھی جاری رکھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد عطیہ قائدِاعظم کے کہنے پر 1948 میں پاکستان منتقل ہو گئیں۔ قائدِاعظم کی خاندانی زبان بھی گجراتی تھی اور عطیہ اور رحمین سلیمانی کی بھی۔ بلکہ یہ دونوں خاندان بمبئی میں پڑوسی بھی تھے۔ پھر عطیہ کیونکہ ہندوستان کے مشہور طیب جی خاندان کی نواسی تھیں جن کا بڑے مسلم گھرانوں میں شمار ہوتا تھا اور ہے۔
قائد نے قیامِ پاکستان کے بعد ان تمام لوگوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی جن کی نئے ملک کو ضرورت تھی۔ ان میں ہی عطیہ اور فیضی بھی تھے، تاکہ ملک میں فنون کے نئے در کھلیں اور پاکستان کے مختلف پہلو بھی پاکستان کی پہچان بنیں۔
ان کی آمد پر قائد نے کراچی بلدیہ کو انہیں زمین دینے کا کہا اور قائد کے حکم پر بلدیۂ اعظم نے انہیں پاکستان چوک کے نزدیک کراچی کی مرکزی شاہراہ پر جگہ دے دی۔ چورنگی برنس گارڈن اور وکٹوریہ میوزیم سے شروع ہوتی تھی اور اس کے بعد کی زمین عطیہ کے لیے مختص کر لی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برنس گارڈن تو آج بھی موجود ہے لیکن وکٹوریہ میوزیم اب کراچی سپریم کورٹ رجسٹری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
خیر، عطیہ اور رحمین نے 30 لاکھ کی لاگت سے ایک گیلری اور میوزیم کے ساتھ ساتھ اپنے لیے رہائشی کمرے بھی بنائے اور اسے بمبئی کی یادگار کے طور پر ’ایوانِ رفعت‘ کا نام دیا۔ یہاں ہر جمعہ دانشور اور فنکار یکجا ہوتے۔ جامعہ کراچی کے شعبۂ ویژول اسٹڈیز کی سربراہ
درّیہ قاضی نے بتایا کہ ان کی والدہ عزیز فاطمہ قاضی، عطیہ اور فیضی کے ’ایوانِ رفعت‘ میں اکثر جاتی تھیں۔ ان کے ہندوستان سے عطیہ کے مراسم تھے کیونکہ وہ محمد علی جوہر کی بیٹی تھیں۔ درّیہ نے اپنی والدہ سے سنا ہے کہ وہاں کبھی مصوری، موسیقی، ثقافت پر بات ہوتی تو کبھی ’ادب‘ محفل کا موضوع ہوتا۔
اس بات کی تائید سینیئر صحافی عافیہ سلام بھی کرتی ہیں کہ انہیں ہلکی ہلکی بچپن کی یادوں میں اپنے والد کے ساتھ ’ایوانِ رفعت‘ جانا یاد ہے۔
وسیم رضا اپنی کتاب ’عطیہ فیضی رحمین‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس عمارت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا: ایک آرٹ گیلری اور ایک رہائشی حصہ۔ دونوں عمارتوں کے درمیان مغلیہ طرز کا باغ بھی تھا۔ یہاں پر بھی ’3 آرٹ کلب‘ کو پھر سے شروع کیا گیا۔ اسے پیرس کے لٹریری کیفے کی طرز پر آگے بڑھایا گیا۔ ڈبلیو زیڈ احمد، خطاط یوسف دہلوی، ممتاز شانتی، ولی صاحب، مختار بیگم، رقاصہ آزوری، ماہر القادری، رئیس احمد جعفری اور ضیاالدین جعفری ان کی مشترکہ محفلوں کا حصہ ہوتے۔ زبیدہ آغا، لیلیٰ شہزادہ جیسے لوگ دارالحکومت کو ثقافتی رنگ بخش رہے تھے۔‘
وہ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ یہاں پاکستان کی پہلی مصوری کی نمائش کی گئی اور مصور مشہورِ زمانہ عبدالرحمٰن چغتائی تھے، جس کا افتتاح گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے کیا۔ اس کے علاوہ یہاں احمد شیخ، میو اسکول لاہور، استاد اللہ بخش، گل جی، شاکر علی، زبیدہ آغا، خطاط یوسف دہلوی، اقبال اور پروین رقم کو اپنے ایوان میں شرف بخشا۔
ماہر القادری اپنی پاکستان میں عطیہ سے ملاقات کا احوال کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ ’پاکستان میں عطیہ سے 1948 میں کارٹن ہوٹل میں ملاقات ہوئی۔ پھر ایک کوٹھی کرائے پر لے لی۔ یہاں بھی بمبئی سی رونق رہتی۔ برنس گارڈن کے قریب، اب جہاں آرٹس کونسل ہے، وہاں عطیہ نے ایک کشادہ مکان تعمیر کرایا، ساتھ ایک آرٹ گیلری بھی تھی، جس میں ان کے شوہر کی اعلیٰ اور شاندار پینٹنگ کے نمونے آویزاں تھے۔ خاص کر شوکت علی کی قدِ آدم تصویر۔ دیکھنے والے کو پہلی نظر میں دھوکہ ہوتا تھا جیسے عین مین شوکت علی کھڑے ہیں۔ ان عمارتوں کا بیرونی رنگ دلی کے لال قلعے جیسا تھا۔‘
جہاں ہندوستان میں ان کی زندگی اوجِ ثریا پر پہنچی، وہیں پاکستان میں ان کی آخری دہائی کافی مشکل بلکہ ناقابلِ یقین رہی۔ ماہرالقادری نے عطیہ کے خاکے میں لکھا ہے کہ یہ لوگ ڈھائی تین سال اس مکان ’ایوانِ رفعت‘ میں رہے، پھر ان پر ایسی بپتا پڑی کہ انہیں یہ مکان چھوڑ کر جانا پڑا۔ عطیہ فیضی، ان کے شوہر اور ان کی بہن نے حکومت کی اجازت سے یہ عمارت بنائی تھی۔ دونوں عمارتیں غالباً اب تک خالی پڑی ہیں۔ یہ بہت بڑا سانحہ تھا جو انہیں پیش آیا۔ ضعیف العمری، خاندان اور اولاد کوئی تھی نہیں۔ کرائے کے مکان میں جمع کیا ہوا اندوختہ آخر کہاں تک ساتھ دیتا۔ کسی قسم کا روزگار نہیں۔ مثلِ مشہور ہے کہ ’مفلسی میں آٹا گیلا‘۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایوانِ رفعت‘ سے انہیں کیوں بے دخل کیا گیا؟
بقول ڈاکٹر وسیم رضا: ’1957 میں کراچی کے کمشنر نیاز احمد خان، جو ایوب خان کی کابینہ کے رکن محمد شعیب کے بھائی تھے، انہوں نے جب ایوانِ رفعت میں فن پاروں سے چھیڑ چھاڑ کی تو انہیں عطیہ نے ٹوکا۔ انہوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ اس بات کی تصدیق اقبال اے رحمن بھی اپنی کتاب میں کرتے ہیں۔ نیاز احمد نے ایک قانونی سقم کا فائدہ اٹھایا، کیونکہ عطیہ اور فیضی کو الاٹ کی گئی زمین ان کے نام نہیں ہوئی تھی یعنی کاغذی کارروائی مکمل نہیں تھی۔ اس لیے ان کے حکم پر بلدیۂ اعظم کراچی نے وہ زمین ان سے واپس لے لی۔ یہاں تک کہ وہ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک گئیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے مغربی پاکستان کے چیف جسٹس ایس اے رحمن کو تفصیلی خط لکھا۔ ان کے زور ڈالنے پر تین سال بعد فیصلہ آیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ کے ایم سی انہیں دو لاکھ بیس ہزار جرمانہ ادا کرے۔ لیکن اگلے ہی دن عدالت نے نظرِ ثانی کرتے ہوئے بس بیس ہزار کا جرمانہ عائد کیا، جس کی وجہ سے انہیں بڑی دربدری کا سامنا کرنا پڑا۔ جو مکان انہوں نے اپنی پوری جمع پونجی سے بنایا تھا وہ ان سے لیا جا چکا تھا۔ اس کے بعد ان کا کوئی مستقل ٹھکانا نہ رہا۔ مرتے دم تک وہ افتادہ حالت میں رہیں۔ ملک اور خاندان چھوڑا اور یہاں بے سہارا مریں۔‘
رسالہ ’آج: کراچی کہانی‘ میں مارجین حسین کا ایک مضمون شامل کیا گیا جو ڈان اخبار میں چار اکتوبر 1996 کو چھپا تھا۔ انہوں نے ڈان میں چھپنے والی ایک تصویر، جس کا عنوان تھا: ’قومی سرمائے کے پانچ خزانے: فیضی رحمین کی پانچ پینٹنگیں صادقین آرٹ گیلری کے گرد آلود فرش پر دیوار سے ٹکی ہوئی ہیں،‘ سے اپنے مضمون کا آغاز کیا۔
مارجین نے میاں بیوی کی فنی خدمات اور پھر ان کی زبوں حالی کی داستان لکھی ہے کہ فیضی کی نایاب پینٹنگیں، عطیہ کے نادر و نایاب ہیرے اور جواہرات، ذاتی ڈائریاں اور دیگر اشیا کو بکسوں میں بند کر دیا گیا اور یہ بکسے بھی ان کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ انہیں اپنا سامان بیچنا پڑا۔ کئی لوگوں کی طرح انہوں نے بھی لیلیٰ شہزادہ کی بات لکھی ہے کہ وہ آرٹس کونسل کے پروگراموں میں شرکت کرتے تھے اور وہاں انہیں کھانے پینے کی اشیا کو اپنے ساتھ لاتے دیکھا گیا۔ ہم نے صادقین آرٹ گیلری کے سبطین نقوی سے فیضی رحمین کی ان پینٹنگز کے بارے میں جانا تو ان کا کہنا تھا کہ صادقین آرٹ گیلری میں فیضی کی کوئی پینٹنگ نہیں۔
صحافی اور کالم نگار نصراللہ خان اپنے شخصی خاکوں کی کتاب ’کیا قافلہ جاتا ہے‘ میں لکھتے ہیں کہ ’عطیہ بیگم جوانی میں رنگین داستان تھیں اور بڑھاپے میں وہ اس داستان کی ’داستان گو‘ بن گئیں۔ وہ اسی کے سہارے اور سائے میں زندہ رہیں۔ وہ ایک پوری صدی کی تہذیبی زندگی کی امین تھیں۔ انہیں زندگی سے پیار کرنا آتا تھا۔ وہ مرتے وقت ورثے میں خوشیاں دے کر گئیں اور اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ قوم کے حوالے کر گئیں۔‘
نصراللہ عطیہ کی شخصیت سے خائف نظر آتے ہیں۔ ڈان اخبار اور پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر مولوی محمد سعید اپنی کتاب ’آہنگِ بازگشت‘ میں بھی عطیہ کے طنز اور حاضر جوابی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’عطیہ کسی حد تک منہ پھٹ تھیں۔ شاید یہی صفت ان کے لیے مصیبت بن گئی۔‘
عطیہ کی بدحالی کا احوال ہمیں ماہرالقادری کی تحریر میں بھی نظر آیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’صدر کی ایک قالینوں کی دکان پر میں نے صوفوں، الماریوں اور میزوں کو دیکھا جو عطیہ اپنے ساتھ لائی تھیں، جبکہ یہ دیدہ زیب ڈیزائن یادگار کے طور پر کسی میوزیم میں ہونا چاہیے تھا۔ مگر حالات سے مجبور ہو کر اسے سستے داموں بیچ دینا پڑا۔ پچھلے دنوں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، عطیہ کا ذکر چلا تو افسوس کے ساتھ کہنے لگے کچھ دن پہلے میرے پاس پچاس روپے بطورِ قرضہ لینے آئی تھیں۔ بات کرتے ہوئے عطیہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ میں بھی آبدیدہ ہو گیا۔ سو روپے ہدیہ دیا۔ اسی پریشان روزگار اور نکبت و افلاس کے عالم میں ڈیڑھ دو سال پہلے فیضی رحمین کا انتقال ہوا، پھر عطیہ پر فالج کا حملہ ہوا، پانچ دن ہسپتال میں بے ہوش رہیں اور چار جنوری 1967 کو انتقال ہوا۔‘
’ڈینسو ہال‘ اور ’نگار ہوٹل‘
اقبال اے رحمن لکھتے ہیں کہ وہ ’ایوانِ رفعت‘ سے نکل کر کچھ عرصہ ڈینسو ہال کی اوپری منزل پر رہیں، جہاں میاں بیوی کو سکون سے رہنے نہیں دیا گیا اور پھر وہ ’نگار ہوٹل‘ منتقل ہو گئیں۔ وہاں پہلے 87 برس کی عمر میں فیضی کا انتقال ہوا اور پھر تین سال بعد عطیہ اس دنیا سے گئیں۔
عقیل عباس جعفری ’پاکستان کرونیکل‘ میں لکھتے ہیں کہ 29 مارچ 1967 کو ’فیضی رحمین آرٹ گیلری‘ کا قیام عمل میں آیا۔ ان کی بڑی بہن لیڈی نازلی رفیعہ، سلطان آف جنجیرہ، نے کراچی کے ڈینسو ہال میں آرٹ گیلری کا افتتاح کیا جس میں فیضی کی 150 تصاویر، عطیہ کی مختلف ڈائریاں، فیضی رحمین کو ملنے والے بین الاقوامی اعزازات، مشاہیر کی یادگار تحریریں اور دیگر نوادرات رکھے گئے تھے۔
ماہرالقادری لکھتے ہیں کہ ان کے پاس زمرد اور ہیرے تھے جو موقع بہ موقع پہنتی تھیں۔ اس سے بھی زیادہ قیمتی ان کے پاس مشاہیر کے خطوط کا خزانہ تھا۔ عطیہ نے مجھ سے جس پر دستخط لیے وہ ایک نادر و نایاب چیز تھی۔ اس پر ترکی، ہندوستان، انگلستان اور دیگر مشاہیر کے دستخط اور تحریریں تھیں۔ ’گاندھی کے خون سے دستخط۔‘ یہ صرف عطیہ کا فنکار ذہن ہی کر سکتا ہے۔ عطیہ کی زندگی رنگین بھی ہے اور ورقِ عبرت بھی۔
حال ہی میں یاسمین لاری نے ڈینسو ہال کی بحالی کا کام کیا۔ جب ہم نے ان سے عطیہ اور فیضی کے بارے میں جانا تو ان کا کہنا تھا کہ عطیہ فیضی سے ایک ملاقات یاد ہے۔ وہ بڑے کسمپرسی کے دن تھے۔ میں اور میرے میاں باہر سے آئے تھے تو ان سے ملنے گئے۔ وہ لوگ ایک ہوٹل کے کمرے میں رہ رہے تھے۔ ان کے نوادرات اور تصاویر کہاں گئیں، نہیں پتا۔ میں نے بلدیۂ اعظم کا آرکائیوز سیکشن ترتیب دیا تھا، لیکن اس میں بھی ان کا کوئی سامان نہیں ملا تھا۔
سوال یہی ہے کہ پھر فیضی اور عطیہ کا قیمتی سامان کہاں گیا؟
کراچی کی آرٹ اور مصوری سے جڑی ایک معروف شخصیت نیلوفر فرخ کہتی ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق فیضی اور عطیہ کا زیادہ تر سامان ’ایوانِ رفعت‘ کی لائبریری میں موجود ہے اور آخری بار اس جوڑے سے منسلک تصاویر اور مصوری مہتا پیلس میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس بات کو بھی اب کئی سال گزر چکے ہیں۔
ہم نے ’ایوانِ رفعت‘ میں کیا دیکھا
نیلوفر سے گفتگو کے بعد ہم نے کئی دفعہ ’ایوانِ رفعت‘ کا چکر لگایا کہ بکسوں میں بھرے خزانے تک رسائی مل سکے۔ لیکن پہلے پہل لائبریرین تک رسائی ملی، پھر بڑی تگ و دو کے بعد شعبے کے سربراہ سے ملاقات اور گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اسے کھولا نہیں جا سکتا، اجازت لینی پڑتی ہے۔
لیکن کئی چکر لگنے کے بعد اجازت ملی تو انچارج صاحب چابیوں سمیت غائب۔ ہم نے دیواروں پر چند ’تصویر بتاں‘ کی تصویریں کھینچیں۔ ساتھ ہی ہمارے اصرار پر تاثراتی کتاب کھولنے اور تصاویر لینے کی اجازت دے دی گئی۔ ہم نے کہا بھی کہ چلیں فیضی کی قیمتی اور نادر مصوری نہ دکھائیں، کم از کم عطیہ کا نادر و نایاب سامان ہی دکھا دیں۔ لیکن آخر آخر تک بکسوں کا تالا نہ کھلا اور ہم ان قیمتی نوادرات کو دیکھنے کی آرزو لیے باہر آگئے۔
عطیہ اور فیضی کا ایک اور حوالہ: سلیمانی بوہرہ قبرستان
عطیہ اور فیضی کی تدفین میوہ شاہ میں سلیمانی بوہرہ قبرستان میں ہوئی۔ یہودی قبرستان کے نزدیک ’نور باغ قبرستان‘ داؤدی بوہرہ کمیونٹی کے لیے ہے۔ لیکن ہمیں تلاش سلیمانی بوہرہ قبرستان کی تھی کیونکہ عطیہ اور فیضی کا تعلق اسی سے تھا۔ پہلی بار معلوم ہوا کہ بوہری بھی دو واضح حصوں میں تقسیم ہیں اور دونوں کے قبرستان بھی الگ الگ ہیں۔ نور باغ کا نقشہ تو ہمارے ذہن میں تھا مگر جس سے پوچھیں: ’سلیمانی بوہرہ کہاں ہے؟‘ تو کوئی جانتا ہی نہیں۔
ایک سے دو ہفتے کی تلاش کے بعد گوگل میپ پر تکیہ کرتے ہوئے ہم نے میوہ شاہ قبرستان کا قصد کیا۔ بھری دوپہر میں وہاں پہنچے۔ قبرستان کی دیوار پر 1950 کا سن درج تھا۔ ابھی چوکیدار کی تلاش جاری تھی کہ ایک خاندان ہمارے ساتھ آ کر کھڑا ہوا۔ تھوڑی ہی دیر میں چوکیدار بھی آ گئے۔ تالا کھولا گیا اور ہم احاطے میں داخل ہوئے جو کہ ہمارے تصور سے چھوٹا تھا۔ یہاں خواتین کی قبریں زیادہ اور مردوں کی کم تھیں۔
اس قبرستان کی خاص بات یہ تھی کہ اس احاطے میں صنف کی واضح تقسیم نظر آئی: خواتین ایک طرف اور دوسری طرف مردوں کی قبریں تھیں۔ عطیہ اور ان کی بہن نازلی کی قبروں کے کتبے پر ’الحرۃ عطیہ بنت حسن علی‘ اور ’الحرۃ نازلی حسن علی‘ درج ہے، جبکہ فیضی کے کتبے پر 786 کے ساتھ ان کا نام ’فیضی رحمین‘، عمر 87 سال اور تاریخِ وفات 22 اکتوبر 1964 درج ہے۔
کیا عطیہ اور فیضی رحمین کا حق آج ادا ہو سکتا ہے؟
’ایوانِ رفعت‘ کو پھر سے آباد کرنے کا خاکہ آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ پہلے پہل 80 کی دہائی میں 1800 لوگوں کے لیے آڈیٹوریم اور گیلری بنانے کی بات کی گئی۔ تعمیر شروع بھی ہوئی لیکن کئی دہائیوں سے اس کا ڈھانچہ کھڑا ہے اور کسی طور پروجیکٹ مکمل نہیں ہو پا رہا۔ کوئی وسائل کی کمی کا اظہار کرتا ہے، لیکن اس سے زیادہ نیت کا فرق نظر آتا ہے۔ بلدیۂ اعظم کے پاس اس کے اختیارات ہیں، لیکن آج تک یہ ادارہ اپنے مالکوں کے خوابوں کی تعبیر کے لیے شاکی ہے۔
رفعت زکریا کے مطابق فیضی کی پینٹنگ کے علاوہ 1500 مخطوطات اور دیگر قیمتی اشیا عطیہ کے کلیکشن کا حصہ تھیں۔ اگر ان سب قومی نوادرات کو عام لوگوں کے لیے نہ سہی، فنون سے محبت کرنے والوں کے لیے آباد کر دیا جائے تو کراچی کا نیا رخ سامنے آئے گا۔
ہم نے فنون کی آبیاری کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ 75 برس سے بکسوں میں بند پڑا نادر سامان کس حال میں ہو گا، خدا جانتا ہے یا پھر ’اسے ہوا لگانے والے‘۔ اقبال اے رحمن سوال کرتے ہیں کہ کمشنر صاحب تو بہک گئے تھے، باقی زمانے کے بڑوں نے عطیہ کی داد رسی کیوں نہ کی؟ انہیں اکیلا کیوں چھوڑ دیا گیا؟
حسن واڈا اور ثمینہ اقبال بالکل درست کہتے ہیں کہ اگر ٹَیٹ (Tate) گیلری میں 1952 میں انڈین سیکشن انچارج نے فیضی کے کام کو نظر انداز کیا تو سوال یہ ہے کہ آج کتنے پاکستانی ان کے نام سے واقف ہیں؟
انہی سوالوں کے ساتھ امید کرتے ہیں کہ عطیہ اور فیضی کا خواب اس دہائی میں مکمل ہو جائے گا۔