ترک وزیر خارجہ حقان فداننے بتایا ہے کہ ترکی پیر (تین نومبر) کو مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد کرے گا تاکہ غزہ کے لیے امریکہ کے امن منصوبے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اجلاس میں پاکستان بھی شرکت کرے گا۔
اسرائیل اور حماس نے مصر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں نو اکتوبر 2025 کو غزہ میں فائر بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا تھا، جس میں قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ میں امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔ یہ 20 نکاتی منصوبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
بعد ازاں 14 اکتوبر کو امریکہ، مصر، قطر اور ترکی نے مصر میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں غزہ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترک وزیر خارجہ حقان فدان نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ استنبول میں ہونے والا اجلاس ’ہماری پیش رفت کا جائزہ لے گا اور اس حوالے سے غور کرے گا کہ اگلے مرحلے میں ہم مل کر کیا حاصل کر سکتے ہیں۔‘
وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ مصر، انڈونیشیا، اردن، پاکستان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کو اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے۔
ان تمام ممالک کے وزرائے خارجہ نے 23 ستمبر کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔
حقان فدان نے اپنے سٹونین ہم منصب مارگس تشخنا کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا: ’ایک امید کی کرن ابھری ہے، جو سب کے لیے امید کی ایک جھلک لائی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں کئی امور پر بات چیت کی ضرورت ہے۔ ’معاہدے پر عمل درآمد میں کیا رکاوٹیں ہیں؟ کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اگلے اقدامات کیا ہوں گے؟ ہم اپنے مغربی دوستوں سے کیا بات کریں گے؟ اور امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات کے لیے کس حد تک حمایت موجود ہے؟‘
حقان فدان نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پر الزام عائد کیا کہ وہ ’غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں تاکہ پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے نسل کشی کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔‘
ترکی نے ایک ہفتہ قبل 81 رکنی امدادی ٹیم غزہ بھیجی تھی تاکہ تلاش اور بچاؤ کی کارروائیوں میں مدد دی جا سکے، لیکن ترک وزیر خارجہ کے مطابق یہ ٹیم اب بھی سرحد پر اسرائیلی اجازت کی منتظر ہے تاکہ فلسطینی علاقے میں داخل ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ اب بھی ’سرگرمی سے کام کر رہی ہے‘ اور ترک فوج جنگ بندی کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی فورس میں شمولیت کے امکان پر گفتگو کر رہی ہے۔
تاہم اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیڈون سار نے پیر کے روز کہا کہ ان کے لیے یہ ’غیر معقول‘ ہوگا کہ ترکی کو اس فورس میں شامل ہونے دیا جائے کیونکہ ان کا اسرائیل کے ساتھ ’معاندانہ رویہ‘ ہے۔
گیڈون سار نے کہا: ’لہٰذا یہ ہمارے لیے معقول نہیں کہ ہم ان کی مسلح افواج کو غزہ کی پٹی میں داخل ہونے دیں۔ ہم اس پر راضی نہیں ہوں گے اور ہم نے یہ بات اپنے امریکی دوستوں کو بھی بتا دی ہے۔‘