وزیر مملکت برائے قانون و انصاف عقیل ملک نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہے، لہذا ان کی توسیع کے لیے ’کسی نئے نوٹیفیکیشن کی ضرورت نہیں۔‘
یہ بات وزیر مملکت نے اسلام آباد میں انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم میں آرمی چیف کی مدت ملازمت پانچ سال کرنے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے تھے کہ نئے قانون کے تحت حکومت نے آرمی چیف کو مزید دو سال کی توسیع کے لیے ایک نیا نوٹیفیکیشن جاری کرنا ہے۔
قانون میں کی گئی ترامیم سے قبل آرمی چیف کی مدت ملازمت رواں ماہ نومبر میں مکمل ہونا تھی۔ لیکن حال ہی میں کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم میں آرمی چیف کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگئی جس سے موجودہ آرمی چیف کو بھی مزید دو سال توسیع مل گئی۔
عقیل ملک نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ’اس حوالے سے پانچ سال کی مدت ہے، اور اس کے لیے کسی نئے نوٹیفکیشن یا کسی نئی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ان سے دریافت کیا کہ آئین کے آرٹیکل 243 کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی حیثیت دی جا رہی ہے تو انہوں نے اس کی نفی کی۔ ’نہیں، ایسی باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔ سوشل میڈیا پر من گھڑت خبریں گردش کر رہی ہیں۔ حکومت وقتا فوقتا تمام معاملات پر عوام کو آگاہ رکھتی ہے۔‘
’میرے ذاتی خیال میں دونوں عہدے الگ ہونے چاہییں۔ آرمی چیف چار سٹار جنرل ہوتے ہیں جبکہ فیلڈ مارشل اعزازی طور پر پانچ سٹار رینک رکھتے ہیں، اس لیے دونوں کی نوعیت مختلف ہے۔‘
اس سوال کہ کہ آیا صدر کی جگہ فیلڈ مارشل مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بن جائے گا؟ وزیر مملکت نے اس سے بھی انکار کیا۔ ’نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا اور ایسا ہوتا بھی نہیں ہے۔ اس پر بات کرنا قبل از وقت ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ یہ سب معاملات ابھی قومی سلامتی سے جڑے ہیں لہذا ان پر ان کی جانب سے زیادہ بات کرنا درست نہیں ہے۔
دوسری جانب وزیر مملکت برائے قانون و انصاف عقیل ملک نے اس بات تصدیق کی ہے کہ 27ویں مجوزہ آئینی ترمیم پر حکومتی اور اتحادی سطح پر مشاورت حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، اور امکان ہے کہ یہ ترمیم رواں ہفتہ پارلیمان میں پیش کر دی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پراعتماد دکھائی دینے والے عقیل ملک نے کہا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے 26 ویں ’آئینی ترمیم کے بعد ہی اس پر کام شروع کر دیا گیا تھا۔ اب مسودہ تقریبا تیار ہے۔ جلد ہی یہ ترمیم پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہو جائے گی۔ اتفاق رائے پیدا ہو جاتا ہے تو ممکن ہے کہ رواں ماہ یہ ترمیم منظور ہو جائے۔‘
وزیر مملکت نے بتایا کہ اس وقت اتحادی جماعتوں سے مشاورت جاری ہے، جبکہ اپوزیشن سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اتحادیوں کو ملا کر حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں مطلوبہ نمبر موجود ہیں۔‘
ایک سوال کہ کیا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وزیر اعظم کی تبدیلی اس وجہ سے تاخیر کا شکار ہے کہ پیپلز پارٹی سے پہلے 27ویں ترمیم پر تعاون مانگا جا رہا ہے تو مسلم لیگ (ن) کے عقیل ملک نے جواب دیا ’سیاست میں لین دین ہوتی ہے۔ اتحادی ہیں تو ظاہری بات ہے کچھ لے اور کچھ دے ہوتا ہے۔ لیکن ہم کشمیر کی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے، صرف ان کے تحریک عدم اعتماد میں اصولی مدد کریں گے۔ سیاست میں یو سکریچ مائے بیک اینڈ آئی ول یورز ہوتا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان انٹرنیشنل سٹیبیلائزیشن فورس کا حصہ بننے جا رہا ہے تو عقیل ملک نے کہا کہ ’اس پر بات کرنا قبل از وقت ہے۔ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کی حالیہ ملاقات میں اس پر بات ہوئی ہے۔ اگر کوئی اعلامیہ جاری ہوتا ہے تو حکومت اور پارلیمان ہی فیصلہ کریں گے کہ پاکستان کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ اگر فیصلہ ہوا تو پاکستان ’امن اور قبلہ اول کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔ اگر پارلیمان فیصلہ کرے اور پاکستان غزہ فورس کا حصہ بنے تو یہ ہمارے لیے باعث فخر ہوگا۔‘
بعض سیاسی و سماجی حلقے حکومت کو اس فورس کا حصہ نہ بننے کا مشورہ دے رہے ہیں تاہم حکومت نے اس معاملے پر گیند پارلیمان کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔
مشاورت جاری
ادھر حکومتی سطخ پر اتحادیوں سے نئی آئینی ترمیم پر مشاورت جعمرات کو بھی جاری رہی۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف سے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ کے سات رکنی وفد اور استحکام پاکستان پارٹی کے صدر اور وفاقی وزیر مواصلات عبد العلیم خان اور وزیر مملکت برائے سمندر پار مقیم پاکستانی، اون چوہدری نے ملاقاتیں کیں۔
ایم کیو ایم کے وفد میں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری، وفاقی وزیر صحت سید مصطفی کمال، ارکان قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار، جاوید حنیف خان، سید امین الحق اور خواجہ اظہار الحسن شامل تھے۔
اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، وزیرِ پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری اور مشیرِ وزیرِ اعظم رانا ثناء اللہ بھی شریک تھے۔