پنجاب کی مختلف ٹرانسپورٹ تنظیموں نے صوبے میں نافذ ٹریفک آرڈیننس 2025 اور اس کے تحت ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کیے جانے والے بھاری جرمانوں کے خلاف پیر کو ہڑتال کر دی۔ ٹرانسپورٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے مسافروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان ٹرانسپورٹ متحدہ مشترکہ ایکشن کمیٹی کے رکن اور پاکستان منی مزدا گڈز ٹرانسپورٹ ایسو سی ایشن کے مرکزی صدر حاجی شیر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب کی 11 ٹرانسپورٹ تنظیموں نے متفقہ طور پر اس آرڈیننس کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ آرڈیننس فوری واپس لیا جائے اور اس میں تبدیلی کے لیے ٹرانسپورٹرز سے مشاورت کی جائے۔‘
حاجی شیر علی کے مطابق اس آرڈینینس کے تحت عائد کیے گئے جرمانے اور ایف آئی آرز کا اندراج ’ظالمانہ‘ ہے اور کوئی بھی ٹرانسپورٹرز ان جرمانوں کو ادا نہیں کر سکتا۔
ان کا کہنا تھا: ’مزدا جیسی گاڑیوں پر جرمانہ کم از کم 15 ہزار روپے کر دیا گیا ہے جب کہ مسافر بسوں پر 60 ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے تک جرمانے بھی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایکسیڈنٹ میں موت کی صورت میں 96 لاکھ روپے کی دیت بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ڈرائیور حضرات نے گاڑیاں چلانے سے انکار کر دیا ہے اور ٹرانسپورٹرز کو اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ڈرائیورز بھی میسر نہیں۔‘
حاجی شیر علی کا مزید کہنا تھا کہ مذاکرات کے پہلے دور میں حکومت کی جانب سے سیکریٹری ٹرانسپورٹ، ڈی آئی جی ٹریفک پنجاب اور ڈپٹی کمشنر لاہور شریک ہوئے جبکہ ہماری جانب سے تمام تنظیموں کے سربراہان موجود تھے لیکن فریقین کسی نتیجے پرنہیں پہنچ سکے۔
انہوں نے کہا: ’پیر کو دوپہر دو بجے مذاکرات کا دوسرا دور ہے جب کہ پہلے دور میں سرکاری ٹیم نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ وہ ہمارے مطالبات وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے سامنے رکھیں گے اور ان کی طرف سے ہدایات لے کر ہمیں دوسرے دور میں بتائیں گے۔
’ہمارا یک ہی مطالبہ ہے کہ پہلے آرڈیننس واپس لیا جائے اور پھر آگے مزید بات چیت کی جائے۔ جب تک حکومت آرڈینینس واپس نہیں لیتی مزید بات چیت نہیں ہو سکتی۔‘
حاجی شیر علی نے متنبہ کیا کہ ’اگر یہ ہڑتال جاری رہی تو پنجاب میں آنے والے چند روز میں اشیا خورونوش کی قلت پیدا ہوجائے گی جس کا اثر دوسرے صوبوں پر بھی پڑے گا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال میں پبلک ٹرانسپورٹ 90 فیصد، گڈز ٹرانسپورٹ 100 فیصد جبکہ سکول ٹرانسپورٹ میں کافی حد تک بند ہے۔
دوسری جانب اتوار کو جب ٹرانسپورٹرزنے پیر کو پہیہ جام کی ہڑتال کی کال دی تو اس کے بعد آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ایک بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ قانون پر عملدرآمد کے سوا کوئی اور راستہ نہیں اور زیرو ٹالرنس پالیسی جاری رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بغیرلائسنس ڈرائیونگ موت اورحادثات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سکول کے بچوں کی زندگیوں کی حفاظت پر کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔‘
وزیر ٹرانسپورٹ بلال اکبر کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیر کی دوپہر دو بجے ہونے والے مذاکرات میں محکمے کی جانب سے وزیر ٹرانسپورٹ خود شرکت کریں گے جس کے بعد میڈیا کو تمام حالات سے مطلع کیا جائے گا۔
ٹریفک آرڈینینس 2025
پنجاب ٹریفک آرڈیننس 2025، جسے باضابطہ طور پر صوبائی موٹر وہیکلز (ترمیمی) آرڈیننس 2025 کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ آرڈیننس 25 نومبر 2025 کو گورنر پنجاب کی طرف سے جاری اور منظور کیا گیا، اورفوری طور پر نافذ العمل ہوا اور صوبے کے 60 سال پرانے ٹریفک قواعد میں سب سے اہم تبدیلی ہے۔
آرڈیننس کا مقصد روڈ سیفٹی کو بڑھانا، حادثات کو کم کرنا، ماحولیاتی آلودگی (خاص طور پر لاہور جیسے شہری علاقوں میں سموگ) کا مقابلہ کرنا اور ڈیجیٹل ٹولز کے ذریعے نفاذ کو جدید بنانا ہے۔ اس میں سخت سزائیں متعارف کرائی گئی ہیں، جن میں 100,000 روپے تک کے جرمانے اور بعض خلاف ورزیوں پر چھ ماہ تک قید کی سزا شامل ہے، جبکہ کم عمر ڈرائیونگ کے معاملات میں گاڑی کے مالکان اور والدین کے لیے جوابدہی پر زور دیا گیا ہے۔
اس آرڈینینس کے نافذالعمل ہونے کے فوری بعد لاہور میں ٹریفک پولیس نے پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔ 30 نومبر کو ٹریفک پولیس لاہور کی جانب سے جاری کردی رپورٹ کے مطابق 72 گھنٹے میں 55 سے زائد سرکاری محکموں کی تقریباً 600 گاڑیوں کو ای چالان نادہندہ ہونے پر روکا اور چالان جمع کرانے پر چھوڑا گیا۔
مختلف خلاف ورزیوں پر تقریباً 1800 مقدمات کا اندراج کیا گیا اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ ون وے کی خلاف ورزی پر 1370 ایف آئی آرز اور ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والے 174 ڈرائیوروں پر مقدمات درج کیے گئے۔
کم عمر میں ڈرائیونگ پر بچوں کو گاڑی یا موٹر بائیک دینے والے 30 معاونین کے خلاف ایف آئی آرز درج ہوئیں جب کہ گاڑیوں کی باڈی کو مقررہ حد سے بڑھانے، غیر نمونہ نمبر پلیٹس، تیز رفتاری اور سیاہ شیشوں والی گاڑیوں کے خلاف بھی متعدد ایف آئی آرز کا اندراج ہوا۔