ایرانی کارخانے امریکی اور اسرائیلی جھنڈے کیوں بنا رہے ہیں؟

منگل کو ایرانی انقلاب کی 41ویں سالگرہ کے لیے امریکی اور اسرائیلی جھنڈوں کی ایک نئی کھیپ تیار کی جا رہی ہے، تاہم جہاں کاروبار میں اضافہ ہوا ہے وہیں فیکٹری کے مالک امریکہ اور ایران کے درمیان بہتر تعلقات کا خواب دیکھتے ہیں۔

دیبا پرچم خمین فیکٹری میں  ملازمین امریکہ اور اسرائیل کے جھنڈے تیار کرتے ہوئے (اے پی)

ایران میں مظاہروں میں جلائے جانے والے امریکی اور اسرائیلی جھنڈے بنانے والی فیکٹری کے مالک کا کہنا ہے کہ وہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کے لیے پر امید ہیں چاہے اس کا اثر ان کے کاروبار پر ہی کیوں نہ پڑے۔

آیت اللہ روح اللہ خمینی کے آبائی علاقے میں موجود اس چھوٹے سے کارخانے کے مزدور بہت احتیاط سے ایک کپڑے پر 50 ستارے اور 13 سرخ و سفید قطاریں بنا کر امریکی جھنڈا تیار کرتے ہیں، جبکہ اسرائیلی جھنڈوں پر بھی بڑی احتیاط سے نیلے رنگ کے ستارہ داؤدی نقش کرتے ہیں۔

وہ یہ جاننے کے باوجود یہ کام کرتے ہیں کہ یہ جھنڈے نذر آتش کر دیے جائیں گے۔

یہ کمپنی ’دیبا پرچم خمین‘ ہے جو ایران میں حکومتی حامیوں کے مظاہروں میں جلائے جانے والے جھنڈے بنانے والی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ 

یہ جھنڈے ایران کی مذہبی حکومت کی حمایت اور 1979 کے اسلامی انقلاب کی یادگار میں جلائے جاتے ہیں جس میں امریکی کو ایران کا سب سے بڑا مخالف اور ’بڑا شیطان‘ قرار دیا گیا تھا۔ انقلاب میں سے بھی ایسی تصایرسامنے آئیں تھیں۔ 

منگل کو ایرانی انقلاب کی 41ویں سالگرہ کے لیے جھنڈوں کی ایک نئی کھیپ تیار کی جا رہی ہے۔

اس بار یہ تقریبات علامتی طور پر زیادہ اہم ہیں کیونکہ یہ امریکی ڈرون حملے میں ایران کے اعلیٰ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان موجود کشیدگی کے دوران منائی جا رہی ہیں۔

اس کے باوجود ایران کے درمیانے طبقے کی طرح اس کارخانے کے مالک بھی ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے پر امید ہیں۔

ابوالفضل خانجانی کہتے ہیں: ’میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن آئے گا جب ہمارے تیار کردہ جھنڈے تحفے کے طور پر دیے جائیں گے۔‘

لیکن اسلامی انقلاب کے قائد کے آبائی علاقے کی حیثیت سے مشہور شہر خمین میں یہ دن ابھی تک نہیں آیا۔

یہ کارخانہ خمین کے نواحی علاقے حشمتہ میں ہے جہاں کام کرتے مزدور لینین کے کپڑے پر ایک نیلی مستطیل میں پچاس سفید ستارے بناتے ہیں اور پھر اس کپڑے پر کئی سرخ قطاریں بنا کر اسے امریکی جھنڈے کی شکل دیتے ہیں۔

یہ کمپنی ایک سال میں پندرہ لاکھ جھنڈے تیار کرتی ہے جن میں کئی پر مذہبی عبارات درج ہوتی ہیں جبکہ کچھ ملک بھر میں سرکاری تقریبات کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔

یہ کارخانہ ایرانی جھنڈے بھی تیار کرتا ہے اور برآمد کرنے لیے عراقی جھنڈے بھی قلیل مقدار میں تیار کیے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں ہر سال چھ ہزار امریکی، برطانوی اور اسرائیلی جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں جو بعد میں دکانداروں کو فروخت کر دیے جاتے ہیں جہاں سے ایرانی سیاست کا سخت گیر طبقہ انہیں خرید کر انہیں پیروں تلے کچلنے اور پھاڑنے کے بعد آگ لگا کر جلا دیتا ہے۔

ابوالفضل خانجانی کا کہنا ہے: ’حالیہ برسوں میں امریکی جھنڈے کی پیداوار تین گنا ہو چکی ہے۔ ہماری تیار کردہ اشیا کے ساتھ کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ خریدار ہی کرتا ہے۔‘

کارخانے کے مالک خود کو ایران کے اصلاح پسند طبقے کے حامی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔ یہ طبقہ اسلامی جمہوری ایران کی پالیسیز میں بتدریج تبدیلی چاہتا ہے تاکہ ملکی صورت حال کو بہتر بنایا جا سکے لیکن ابوالفضل سخت گیر طبقے میں پائے جانے والے امریکہ مخالف جذبات کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مئی 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

اسی دوران مشرق وسطی میں جاری علاقائی اختلافات میں مزید اضافہ ہوا جس کے بعد امریکی ڈرون حملے میں بغداد ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا گیا۔

ابوالفضل خانجانی کہتے ہیں امریکی جھنڈے کو جلانا ایرانی شہریوں کو امریکی پالیسیز کے خلاف براہ راست غصہ نکالنے کا موقع دیتا ہے جن میں ملکی معیشت پر دباؤ کی باعث سخت معاشی پابندیاں بھی شامل ہیں۔

 

ایسوسی ایٹڈ پریس

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا