’کشمیر پر او آئی سی وزارتی اجلاس بلانے کی کوشش کرنی چاہیے‘

اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اسلامی ممالک سمیت دنیا بھر میں اپنے مندوبین بھیجنے کی ضرورت ہے تاکہ کشمیر سے متعلق عالمی رائے عامہ ہموار ہو۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کو کشمیر پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا منیسٹریل اجلاس بلانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ اس معاملے کو اجاگر کیا جاسکے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ ’بھارت نے غیر قانونی طور پر اپنے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور گذشتہ چھ ماہ سے وہاں کی عوام کو قید جیسی صورت حال میں رکھا گیا ہے جو نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اسلامی ممالک سمیت دنیا بھر میں اپنے مندوبین بھیجنے کی ضرورت ہے تاکہ کشمیر سے متعلق عالمی رائے عامہ ہموار ہو۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ان مندوبین میں حکومتی اور حزب اختلاف کے رہنما دونوں کا شامل ہونا ضروری ہے۔ اس طرح دنیا کو محسوس ہو گا کہ پاکستانی قوم کشمیر کے مسئلے پر یکجا ہے۔

ہارڈ کی بجائے سافٹ ڈپلومیسی پر زور

ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں دنیا کے ہر ملک کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے اسی لیے پاکستان کو بھی ہارڈ پالیسی کے بجائے سافٹ یا پبلک ڈپلومیسی پرتوجہ دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پرانا ورلڈ آرڈر تبدیل ہو گیا ہے اور یہ زمانہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا ہے، جو آپ اور آپ کے حریف کو اپنی اپنی بات سامنے لانے کے برابر مواقع فراہم کرتی ہے۔‘

انہوں نے موجودہ بین الاقوامی ماحول کو نہایت ہی پیچیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’طاقت کے ارتکاز میں تبدیلی آرہی ہے۔ گلوبل پاور مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی جو امریکہ اور برطانیہ میں پاکستان کی سفیر بھی رہ چکی ہیں، نے مزید کہا کہ اس نئے ماحول میں تمام ممالک کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے انہیں اپنی خارجہ پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی۔  

ان کا کہنا تھا کہ کئی ایک ملک جن میں چھوٹی چھوٹی قومیں بھی شامل ہیں اپنی خارجہ پالیسیاں تبدیل کر چکی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق مندوب نے زور دیا کہ نئے بین الاقوامی ماحول میں عوامی ڈپلومیسی کی بہت زیادہ ضرورت ہے، جس کے ذریعے ایک ملک دوسرے ملکوں کے عوام میں اپنے حق میں رائے استوار کرتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام کی رائے اور ملکوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔

ملیحہ لودھی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سافٹ ڈپلومیسی میں ثقافت، ادب، تاریخ، تہذیب، موسیقی اور اس طرح کی دوسری چیزوں پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ ہارڈ ڈپلومیسی کا تعلق ملٹری اور اقتصادیات سے ہوتا ہے۔

’پاکستان میں ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جن کے ذریعے دنیا کے کئی ممالک کی عوام کو متاثر کیا جا سکتا ہے۔‘

تاہم سابق سفارت کار کا کہنا تھا: ’دیکھنا ہے کہ پاکستان کہاں اور کس طرح ان تمام چیزوں کو استعمال کر سکتا ہے۔ کچھ چیزیں مغربی ممالک میں اور دوسری مغربی دنیا میں استعمال ہو سکتی ہیں۔‘

ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اب تک پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت بہتر رہی ہے، جس کے ذریعے اس نے اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کیا ہے۔

تاہم انہوں نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ گذشتہ 40 سالوں میں پاکستان کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

ملیحہ لودھی کے خیال میں اس کی وجہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ہے جو نہایت مشکل اور کٹھن ہے اور اس وجہ سے پاکستان کو مشکلات اور نقصانات کا سامنا بھی رہا ہے۔

افغان مسئلے کا حل جلد سامنے آنے کی امید

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان نے ایک مثبت کردار ادا کیا جس سے امریکہ اور طالبان میں مذاکرات ممکن ہو سکے۔

ملیحہ لودھی نے امید ظاہر کی کہ افغان مسئلے کا حل جلد سامنے آسکتا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کی واپسی کے لیے امریکہ، طالبان اور کابل حکومت کے درمیان تعاون اور بات چیت کی ضرورت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان