ان یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم؟

میرے جیسے طالب علم جو تھوڑی بہت علم کی پیاس رکھتے ہیں، جب وہ یونیورسٹی میں آتے ہیں تو وہ وہاں کا حال دیکھ کر خود بے حال ہو جاتے ہیں۔ کبھی ہم نے بھی پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے کا خواب دیکھا تھا۔

(فیس بک)

پنجاب حکومت نے یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم بمعہ ترجمہ لازمی قرار دے دی ہے۔ جو مسلمان طالب علم اپنی ڈگری کے دوران قرآن کریم بمعہ ترجمہ نہیں پڑھے گا اسے ڈگری تفویض نہیں کی جائے گی۔ غیر مسلمان طلبہ کے لیے اخلاقیات کا مضمون پڑھنا لازمی ہو گا۔

یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم دینی چاہیے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ سب سے پہلا نکتہ یہاں مذہبی تفریق کا اٹھتا ہے۔ جیسے مسلمانوں کے لیے قرآن مجید ہے ویسے ہی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے ان کی مذہبی کتابیں ہیں۔ اگر اس فیصلے کے پیچھے حکومت کا مقصد اپنا چورن بیچنا نہیں ہے تو ہر اقلیت کو اس کی مذہبی کتاب بمع ترجمہ پڑھانے کا بھی اعلان ہونا چاہیے۔  ریاست تو سب کی ہے پھر فیصلے صرف مسلمان اکثریت کے لیے کیوں آتے ہیں؟

یہاں دوسرا مسئلہ ہماری یونیورسٹیوں کا ہے۔ کیا وہ طالب علموں کو قرآن مجید پڑھانے کے وسائل رکھتی ہیں؟ کیا وہ اپنی پہلی ذمہ داریاں نبھانے میں اس حد تک کامیاب رہی ہیں کہ اب انہیں یہ اضافی ذمہ داری بھی سونپی جا رہی ہے؟

میرے جیسے طالب علم جو تھوڑی بہت علم کی پیاس رکھتے ہیں، جب وہ یونیورسٹی میں آتے ہیں تو وہ وہاں کا حال دیکھ کر خود بے حال ہو جاتے ہیں۔ کبھی ہم نے بھی پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے کا خواب دیکھا تھا۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کی اور یونیورسٹی میں داخلہ بھی لیا اور تب پتا چلا کہ خواب بس دیکھنے کی حد تک ہی دلکش تھا۔

سیمسٹر شروع ہوا تو یونیورسٹی کا حال کھل کر سامنے آ گیا۔ کچھ اساتذہ کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا تھا۔ نوکری انہیں مل چکی تھی اب وہ چین کی بانسری بجا رہے تھے۔ کچھ پروفیسر ایسے تھے جنہوں نے پی ایچ ڈی کے بعد ریسرچ کرنا اور اس ریسرچ کو تدریس کے لیے استعمال کرنا اپنے اوپر حرام سمجھ رکھا تھا۔ 2011 میں علومِ ابلاغیات اور صحافت کا کیا حال تھا، ان کی جانے بلا، وہ تب بھی 1990 میں مرتب کیا ہوا اپنا کورس پڑھا رہے تھے۔

ایک صاحب جو ایگریکلچر کمیونیکیشن پڑھا رہے تھے، پورا سیمسٹر بس یہی بتاتے رہے کہ فلاں قوم ہفتے میں اتنے انڈے کھاتی ہے اور فلاں اتنے۔ ایک دن ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ جناب کیا آپ کو لگتا ہے کہ جو آپ پڑھا رہے ہیں وہ پڑھ کر ہم زراعت کے کسی مسئلے کے حوالے سے کمیونیکیشن کیمپین بنا سکتے ہیں؟ بات تھوڑی لمبی ہو گئی۔ ایک دوست نے میسج کیا، کیوں اپنا جی پی اے خراب کر رہی ہو؟ پڑھانے دو جو پڑھا رہے ہیں۔ 

کرونا کی وجہ سے یونیورسٹیاں بند ہوئیں تو ہماری ہمدردیاں طالب علموں سے زیادہ اساتذہ کے ساتھ تھیں۔ طالب علم تو کھینچ تان کر انٹرنیٹ سگنل پکڑ ہی لیتے تھے، ان پروفیسروں کا سوچیں جنہیں اب پورا گھنٹہ لیکچر دینا پڑ رہا تھا۔ کلاس روم میں تو ایک گھنٹہ چٹکی بجاتے گزر جاتا ہے۔ دس منٹ تو کلاس تک آنے میں لگ جاتے ہیں، پھر حاضری پندرہ منٹ لے جاتی ہے، اس کے بعد لیپ ٹاپ کھولنا، ملٹی میڈیا سے جوڑنے میں بھی اچھا خاصا وقت گزر ہی جاتا ہے۔ اس کے بعد جو وقت بچے، اس میں تھوڑا لیکچر، تھوڑی گپیں۔ اب باقی طلبہ پر ہے، جو پڑھنا چاہتا ہے انٹرنیٹ کھنگال لے ورنہ ایک آدھ کلو مکھن ادھر ادھر لگانا سیکھ لے، اس کا بھی بھلا اور پروفیسر کا بھی بھلا۔

رہی سہی کسر جمعیت کے لڑکے پوری کر دیتے تھے۔ جب چاہتے یونیورسٹی میں ہنگامے مچا دیتے۔ یونیورسٹی بھی ان کے سامنے کچھ نہیں کر پاتی تھی۔ حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے چھٹیاں دے دی جاتی تھیں۔ وہ معاملہ ٹھنڈا ہوتا تو ڈینگی آ جاتا، پھر اس کی چھٹیاں مل جاتیں۔

ان حالات میں یونیورسٹیوں پر قرآن مجید پڑھانے کی ذمہ داری ڈالنا محض ناسمجھی ہے۔ ہمارا وہ تعلیمی نظام جو موجودہ مضامین کو بھی صحیح طریقے سے پڑھانے میں ناکام ہے، وہ قرآن اور اس کا ترجمہ کس طرح پڑھا سکے گا؟ اگر ایسا کچھ ممکن ہوتا تو ہمارے اسلامیات، عربی اور قرآن کی تعلیم دینے والے محکمے کچھ نہ کچھ کارنامہ تو انجام دے ہی رہے ہوتے۔ علاوہ ازیں، جو مدارس دہائیوں سے قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم دے رہے ہیں وہاں سے نکلنے والے طلبہ ملک و قوم کی کس طرح خدمت کر رہے ہیں؟ اگر وہ معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کر سکے تو یونیورسٹیاں کس طرح کر لیں گی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب کی زیادہ تر یونیورسٹیاں کو ایجوکیشن کے تحت بنائی گئی ہیں۔ کیا قرآن مجید کی تعلیم دینے والا اس ماحول میں قرآن پڑھا سکے گا؟ اگلا سوال، قرآن کا ترجمہ کس مترجم کا پڑھایا جائے گا۔ بعض آیات کا ترجمہ سمجھنے کے لیے ان آیات کے نزول کے قریب کے واقعات سمجھنے پڑتے ہیں، اس کے لیے تو کسی عالمِ دین یا مفتی کی خدمات درکار ہوں گی۔

لمبی چھلانگ مارنے سے بہتر ہے کہ انسان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا منزل تک پہنچے کا راستہ عبور کرے۔ گورنر پنجاب کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹیوں پر مزید دباؤ ڈالنے سے پہلے ان کا موجودہ نظام بہتر کرنے کی طرف توجہ دیں۔ یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا سلیبس جدید دور کے مطابق اپ ڈیٹ کروائیں۔ یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ فیکلٹی ممبران کی تعداد بڑھائیں۔ یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کو عوام کے لیے کھولیں۔

سب سے اہم، یونیورسٹیوں کے ماحول کو اتنا آزاد کروائیں کہ وہاں طالب علم کھل کر سانس لے سکیں، کچھ سوچ سکیں اور پھر اس سوچ کو مناسب الفاظ میں بیان بھی کر سکیں۔ اس سب کے بغیر یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم دینا بالکل ویسا ہی ہو گا جیسے مدارس میں انگریزی اور سائنسی علوم کی تعلیم دینا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادارے کا مصنف کی آرا سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ