تبدیلی بھی وبا جیسی ہی ہے

وبا اور تبدیلی دونوں پر قابو پانا ہوگا یا پھر دونوں کے ساتھ رہنے کے لیے ایسے ایس او پیز بنانے ہوں گے جو عوام کی معاشی بدحالی کو دور کر کے ملازمتوں اور روزگار کو بھی مضبوط کرے۔

تبدیلی کی سڑک زیر تعمیر ہے بس گھبرانا نہیں ہے۔ (تصویر: کینوا)

وبا ہو یا تبدیلی دونوں ہی دنیا کو حیران کن اور تباہ کن حد تک متاثر کر رہی ہیں۔

ایک کے خواب دیکھے گئے، نعرے لگائے گئے، خواب دکھائے گئے، میدان سجائے گئے، نغمے گائے گئے، لاٹھیاں بھی چلیں لیکن سب کچھ اچھا ہے کے انتظامات بھی جلد ہی ہوگئے۔ تبدیلی کے نعرے اس قدر لگائے جا چکے تھے کہ بالغ تو بالغ بچوں کو بھی اس کے خواب آنا شروع ہوگئے۔

غیرملکیوں کی بھی پاکستان میں تبدیلی میں دلچسپی اچانک ہی بڑھ گئی جیسے اس تبدیلی کے سب سے زیادہ فوائد ان کو حاصل ہونے تھے۔ ہر ایئرپورٹ پر کوئی نہ کوئی مغربی خاتون اور سڑکوں پر کوئی مرد تبدیلی کے گانے گا رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ نیرو کی بانسری صرف پاکستان میں ہی تبدیلی کے لیے نہیں بجائی جا رہی تھی بلکہ اس تبدیلی سے ساری دنیا میں ہی تبدیلی آجانی تھی۔ خیر تبدیلی آئی لیکن وبا کی طرح۔

خواب ٹوٹے شیشوں کی طرح۔

دونوں وبائیں میرا مطلب ہے کہ تبدیلی اور وبا دونوں میں ایک صورت انتہائی مشترک رہی۔ لوگوں کی زندگی پہلے کسی ان دیکھے خوف میں مبتلا ہوئی، پھر کچھ نہیں ہوگا، ڈرنا نہیں کہہ کے حوصلہ دلوایا گیا، معصوم لوگ سمجھے کہ واقعی کچھ نہیں ہوگا، حکومت سنبھال لے گی کیونکہ تبدیلی پر بھروسہ ہی بہت تھا۔

دنیا بھر کے ماہرین پاکستان میں اکٹھے کیے جاچکے تھے جنہوں نے پاکستان کو انتہائی مشکل حالات سے نکال کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا تھا اور ایک لاغر قوم کو توانا بنانا تھا۔ ایسے ایسے وٹامن دینے تھے اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی میں ایسے ایسے انجیکشنز دینے تھے کہ صرف تین مہینوں میں ایک سال میں معیشت نے سرپٹ دوڑنا تھا اور اس قدر تیز رفتاری سے دوڑنا تھا کہ دنیا کے باقی ممالک نے پاکستان کی اس معاشی ٹیم سے انجیکشنز لگوانے آنا تھا۔ لیکن برا ہو کرونا کا کہ اس نے اس برستی بارش کی طرح تبدیلی کے پہلے سے کُھلتے ہوئے پول کو اور کھول کر سامنے کر دیا جس طرح بارش کی بوندیں دیوار پر لگے کچے رنگ بہا دیتی ہیں۔

انصاف کے تقاضے تو دیکھیں جس کے خواب دکھائے گئے تھے۔ جس طرح وبا نے سب لوگوں کو گھروں میں قید کرکے بٹھا دیا، ایک دوسرے سے ملنے جلنے پر پابندیاں لگا دی کیونکہ جان بچانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی تو نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح  اپنی مرضی کے فیصلے کیے جانے لگے۔ کہا گیا کہ سارے کا سارا ادارہ ہی جعلی لائسنسوں پر کھڑا تھا، اس لیے اس کو دنیا کے سامنے اس طرح مثال عبرت بنایا گیا کہ دنیا کے ہر کونے میں اس پر نہ صرف آوازیں بلند ہوئیں بلکہ پابندی بھی لگا دی گئی۔ تاویلیں بالکل اسی طرح دی جا رہی ہیں جیسے وبا کے خاتمے کے لیے دی گئیں کہ گھبرانا نہیں، ہم نظام کو سیدھا اور کرپشن سے پاک کر رہے ہیں جیسے عموماً زیر تعمیر سڑکوں پر بورڈ لکھا ہوتا ہے کہ ’سڑک زیر تعمیر ہے۔ ہم تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں۔‘

تبدیلی کی سڑک زیر تعمیر ہے بس گھبرانا نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب کون بتائے سرکار کو کہ ہم نہ صرف گھبرا چکے ہیں بلکہ اکتا بھی چکے ہیں۔ عوام میں وبا اور تبدیلی سے بیزاری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اس کو کوئی موقع اور نہیں دینا چاہتی۔ جس جس چیز پر نوٹس لیا گیا اس کا یا تو ستیاناس ہوا یا پھر تباہی۔ اب اللہ خیر کرے سٹیل ملز، روزویلٹ، پی ٹی ڈی سی، پی آئی اے، میڈیا کے بعد تبدیلی کی نظر کرم کہاں اٹھتی ہے؟

سینکڑوں ملازمتوں کو ختم کردیا گیا اور نئی پر پابندی لگا دی گئی۔ عوام ایک طرف تو وبا اور وبا کی وجہ سے معاشی بدحالی سے لڑتے لڑتے نڈھال ہوچکے ہیں اوردوسری جانب تبدیلی کے خواب دکھانے والوں کی مضحکہ خیز پالیسیوں سے تھک چکے ہیں۔

وبا اور تبدیلی دونوں پر قابو پانا ہوگا یا پھر دونوں کے ساتھ رہنے کے لیے ایسی ایس او پیز بنانا ہوں گے، جو عوام کی معاشی بدحالی کو دور کر کے ملازمتوں اور روزگار کو بھی مضبوط کرے۔ اب دیکھیں وبا کب جاتی ہے کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ تبدیلی کی طرح اب ہمیں وبا کے ساتھ بھی رہنا ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ