’پتر اندازے کی غلطی کبھی مت کرنا‘

گپ شپ کے دوران انہوں نے مجھے سرگودھا کے نواحی گاؤں کے ایک چوہدری کا قصہ سنایا۔ سو آپ بھی سن لیجیے۔ سمجھ آنے نہ آنے کی ذمہ داری ہر کسی کی اپنی اپنی ہے۔

ظہیر تارڑ کا تعلق وسطی پنجاب کی ایک بستی کے بااثر اور معزز زمیندار گھرانے سے ہے۔ انہوں نے پاکستان کے ایلیٹ کلاس کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی اور نوّے کے عشرے میں لندن چلا گیا۔

جہاں اس نے فلسفے اور سیاسیات کی ڈگری لی لیکن کمانے کی بجائے اس نے ایک پرانی مرسیڈیز گاڑی لی اور سفر پر نکل پڑے۔

وہ انگلینڈ، فرانس، سپین اور جرمنی سمیت کئی ممالک کی دور افتادہ بستیوں اور کاؤنٹیز میں گھومتے رہے اور وہاں کی تاریخ، تہذیب اور کلاسیکی دانش خصوصاً دیہاتی ادراک (رورل وزڈم) کو ڈھونڈتے اور معاشرے پر اس کے اثرات کو تلاش کرتے اور اپنے عمیق مشاہدے سے گزرتے رہے۔ لگ بھگ آٹھ سال بعد وہ اپنے گاؤں لوٹ آئے اور اپنے پرکھوں کی ویران حویلی کو آباد کرنے پر توجہ مرکوز کر دی۔

شکار کے لیے وہ مختلف علاقوں میں جاتے رہتے ہیں لیکن ان کی توجہ شکار سے زیادہ وہاں کے لوگوں کی تہذیب، دیہاتی دانش، اجتماعی نفسیات، رویوں اور نتائج پر مرکوز ہوتی ہے۔

ظہیر تارڑ کا قول ہے کہ اس مجموعے کے آئینے میں مستقبل کا چہرہ واضح طور پر جھلکتا ہے۔ مقامی زندگی، حالات و واقعات اور بنتے بگڑتے منظر نامے کے بارے میں بھی وہ انہی حوالوں کے ذریعے مستقبل کی تصویر کشی کرتے رہتے ہیں۔

تقریبًا دو سال پہلے جب ایک رات کے لیے میں ان کی سو سالہ قدیم خاندانی حویلی میں ٹھہرا ہوا تھا تو ایک پرتکلف ڈنر کے بعد ہم دونوں حویلی سے ملحقہ باغ میں بچھی منقش چارپائیوں پر بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگے۔ گپ شپ کے دوران انہوں نے مجھے سرگودھا کے نواحی گاؤں کے ایک چوہدری کا قصہ سنایا۔ سو آپ بھی سن لیجیے۔ سمجھ آنے نہ آنے کی ذمہ داری ہر کسی کی اپنی اپنی ہے۔

چوہدری صاحب جتنے ظالم تھے اتنے ہی رحم دل نظر آنے کی اداکاری کرتے، جتنے بڑے دھوکے باز تھے اتنے ہی خود کو سخی اور دردمند بنائے رکھتے۔

اپنی شیطانیت کو اصلاح اور کمینگی کو رحم دلی کے لبادے میں ڈھانپنے کا ہنر بھی جانتے تھے کیونکہ تمام میراثی دولت کدے پر حاضری دیتے، کچھ زادراہ پاتے اور چوہدری کے ’وژن‘ سے استفادہ کرتے اور پھر گاؤں کے ہر نکڑ پر چوہدری صاحب کی انسان دوستی، رحم دلی اور برکتوں کی صدائیں بلند کرتے اور سادہ لوح لوگوں کی ’ذہن سازی‘ کرتے۔

دوسری طرف چوہدری صاحب طاقتور انتظامیہ کے سامنے بریشم کی طرح نرم بنتے تحائف بجھواتے اور سانڈ کو براق بنا کر پیش کرتے۔ گویا چوہدری صاحب نے انتظامیہ اور پروپیگنڈے پر اپنی مخصوص تکنیک کے ذریعے قابو بھی پایا تھا اور اس کے ذریعے اپنے ’اہداف‘ بھی حاصل کرتے رہے۔  

کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ساتھ والے گاؤں کے چوہدری کا انتقال ہوا تو ان کے اکلوتے بیٹے کو شہر سے بلا کر چوہدری کی پگ ان کے سر پر رکھ دی گئی۔ نوجوان چوہدری اگرچہ خلاف معمول ہمدردی، انسان دوستی اور مدد کے جذبے کے حامل نوجوان تھے لیکن ذہانت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

بوڑھے چوہدری کا خیال تھا کہ اس دنیا کا واحد طاقتور اور خطرناک آدمی صرف میں ہی ہوں، اس لیے وہ نوجوان چوہدری کے لیے جا بجا خطرناک ’کنوئیں کھودنے لگے‘۔ زمینوں سے لے کر تھانہ کچہری تک مسائل ہی مسائل کھڑے کر دیئے۔ نوجوان نے بہت کوشش کی کہ چوہدری صاحب راہ راست پر آ جائیں لیکن وہ جتنی کوشش کرتا چوہدری کی خباثتیں اسی رفتار سے مزید بڑھتیں۔

دانش مند نوجوان کو معلوم تھا کہ چوہدری ایک مسلسل اذیت ہیں اور اسے ہر صورت قابو کرنا ہوگا۔ اس لیے طیش میں آنے اور دشمنی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے چوہدری کی قربت اختیار کر لی۔ بوڑھے چوہدری کی زبان کی مٹھاس اور ذہن کی خباثت دن بدن اس سوچ کے ساتھ بڑھتی گئی کہ نوجوان چوہدری معاملے کو سمجھنے سے قاصر ہے لیکن دوسری طرف نوجوان سادہ لوحی کا لبادہ اوڑھے یکسوئی کے ساتھ چوہدری صاحب کی ’کمزوریوں‘ اور شخصیت کے مطالعے میں منہمک تھا، جس کی بھنک تک چوہدری کو نہیں پڑنے دی۔

اپنے آپ کو پوری طرح لیس کرنے کے بعد نوجوان نے تعلق منقطع کر دیا کیونکہ اس کے ہاتھ یہ حقیقت آگئی تھی کہ چوہدری صاحب کی نیک نامی سے مالی معاملات تک سب کچھ اس امیج بلڈنگ کے مینار پر پڑے ہیں، جس کی سرے سے بنیادیں ہی نہیں اور ان کی اصل شخصیت اسی ’بلڈنگ‘ کے عقب میں غلاظت کا وہ ڈھیر ہے، جس سے تعفن اور بدبو کے علاوہ کچھ برآمد ہی نہیں ہو رہا ہے۔

اب نوجوان چوہدری نے حقائق کا ہتھوڑا تھاما اور اپنے ارد گرد میراثیوں کی بجائے سنجیدہ اورباشعور لوگوں کو بٹھانے لگا اور رفتہ رفتہ چوہدری صاحب کی جھوٹی امیج بلڈنگ کی اینٹیں خاموشی اور استقامت لیکن سچائی  کے ساتھ اکھاڑنے لگا۔ جوں جوں اینٹیں اکھڑتی گئیں غلاظت کا ڈھیر نظر آتا اور تعفن پھیلاتا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ عرصہ گزرا تو چوہدری صاحب کی شخصیت عام لوگوں پر پوری طرح عیاں ہوگئی تھی۔ اب قصیدہ گوغیبت کرنے لگے، سادہ لوحی کی جگہ تجزیہ کاری نے لے لی اور میراثی مخبری پر اتر آئے۔ انتظامی افسران نے بھی دعوتیں ٹھکرانا اور ہاتھ کھینچنا شروع کیا، جس کی وجہ سے زمینوں کے مسائل اور تھانہ کچہری کے معاملات بھی یکے بعد دیگرے سر اٹھانے لگے۔ ڈرے سہمے لوگوں کی آنکھوں میں بھی خون اترنے لگا۔

چوہدری صاحب نے حالات ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر اپنی روایتی ہوشیاری بلکہ مکاری کے تمام حربے آزمانا شروع کیے لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی اور حالات قابو سے باہر تھے۔

رفتہ رفتہ چوہدری صاحب اپنی جیپ اور بگھی سمیت اپنے ڈیرے تک محدود ہونے لگے، ڈیرے کی رونق ماند پڑنے لگی، دعوتوں کا سلسلہ قصہ پارینہ بن گیا اور طاقت تماشا بن کر رہ گیا۔

ایک دن گاؤں میں خبر پھیلی کہ چوہدری پر شدید بیماری نے حملہ کیا ہے اور ان کی حالت بہت خراب ہے۔ نوجوان کو پتہ چلا تو پرانے خاندانی تعلقات اورعلاقے کی رسم و رواج کو مدنظر رکھتے ہوئے بیمار پرسی کے لیے گئے تو دیکھا کہ چوہدری صاحب ایک نیم تاریک کمرے میں اکیلے پڑے اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔

نوجوان چوہدری نے ان کا ہاتھ تھاما اور سعادت مند لہجے میں کہا چچا میرے لائق کوئی خدمت!!

چوہدری صاحب نے نحیف و نزار آواز میں کہا کہ 'پتر یہ خدمت کا نہیں وصیت کا موقع ہے، اس لیے اگر برا نہ مانو تو اپنے ہارے ہوئے حریف کی ایک وصیّت لے جاؤ۔'

'پُتّر ہمیشہ اپنی طاقت کو سرکشی اور ذہانت کو مکاری سے بچاتے رہو کیونکہ اس سے اندازے کی غلطی ہو جاتی ہے اور دنیا کا ہر آدمی احمق اور کمزور لگنے لگتا ہے اور مجھے یہی غلطی لے ڈوبی۔ مکاری کی بنیادوں پر کھڑی عمارت اس وقت تک سر بلند رہتی ہے جب تک باد مخالف کا جھونکا نہ اٹھے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ