سرکاری ادویات خوربرد: بلوچستان میڈیکل سٹورڈپو ڈیجیٹل کرنے کا فیصلہ  

میڈیکل سٹورڈپو( ایم ایس ڈی) کے انچارج ڈاکٹرفہیم سمجھتے ہیں کہ ڈیجیٹل نظام سے نہ صرف کرپشن کو روکنے میں مدد ملے گی بلکہ ادویات کی متعلقہ علاقوں کو فراہمی بھی بروقت ممکن ہوسکے گی۔

(سوشل میڈیا)

کوئٹہ میں چار بڑے سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ صوبے میں ضلعی سطح پر سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ 

کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں میں اوپی ڈی کے علاوہ زیرعلاج مریض بھی اکثرجان بچانےوالی ادویات کی کمی کے مسئلے سے دوچاررہتے ہیں۔  

 خدابخش کوئٹہ سے دور ایک علاقے کے رہائشی ہیں۔ وہ سول ہسپتال کوئٹہ کے او پی ڈی میں چیک اپ کے بعد لوگوں سے سرکاری دواخانے کا پتہ پوچھتے ہیں تاکہ وہاں سے وہ ڈاکٹر کے نسخے کے مطابق مفت ادویات لے سکیں۔ 

 چند لوگوں سے پوچھنے کے بعد خدا بخش کو سرکاری دوا خانے کا پتہ تو مل گیا لیکن انہیں وہاں سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا کیونکہ وہاں ان کی پرچی پر لکھی ادویات میسر نہیں تھیں۔ 

 خدابخش نے بتایا کہ وہ کوئٹہ سے سو کلو میٹر دور منگیچر کے رہائشی ہیں، انہیں کمرمیں درد کی تکلیف ہے جس کے لیے انہوں نے پہلے منگیچر کے بی ایچ یو سے رجوع کیا لیکن وہاں ان کا علاج نہ ہوسکا۔ 

خدابخش کے مطابق،وہ پھر کوئٹہ کے سول سنڈیمن ہسپتال آئے تاکہ یہاں ان کاعلاج ہوسکے۔ 

لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہاں بھی وہی صورتحال ہے۔ جس طرح منگیچر میں ادویات نہیں ملتیں ویسے یہاں بھی میسر نہیں ہیں۔ 

خدابخش جیسے کئی مریض ہیں جو صوبے کے دور درازعلاقوں سےکوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں اور بیسک ہیلتھ یونٹس کا رخ کرتے ہیں لیکن وہاں سے انہیں ادویات نہ ہونےکے باعث علاج معالجے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ 

سول ہسپتال کوئٹہ میں ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹررحیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ادویات کی کمی سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے اور ہسپتال میں ادویات موجود نہیں ہیں۔ 

ڈاکٹررحیم کے بقول،ہم مریضوں کونسخہ لکھ کر دیتے ہیں کہ ادویات ایم ایس ڈی سے لے لیں لیکن وہاں سے انہیں جواب مل جاتا ہے کہ ادویات موجود نہیں ہیں۔ 

بلوچستان میں سرکاری ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی میڈیکل سٹور ڈپو ( ایم ایس ڈی ) کے ذمے ہے جو باقاعدہ ٹینڈر کرکےادویات خریدتا ہے اور انہیں ضلعوں کو فراہم کرتا ہے۔ 

ایم ایس ڈی کے اعداد و شمار کے مطابق،ادارے کے ادویات کی خریداری کا2019-20 کا بجٹ دو ارب ہے جس میں ایک ارب اندرون بلوچستان کے ہسپتالوں کے لیے مختص ہے، باقی ایک ارب سے کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں کے لیے ادویات خریدی جاتی ہیں۔ 

ادھر میڈیکل سٹورڈپو( ایم ایس ڈی ) میں کرپشن پر قومی احتساب بیورو نے  سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایم ایس ڈی ڈاکٹر ذوالفقار بلوچ سمیت تین اہلکاروں کو بارہ روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیاگیا ہے۔ 

قومی احتساب بیورو کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق ملزمان نے ریبیز کی انجکشن کی خریداری میں کرپشن کی اور 40 کروڑ کے  انجکشن کی رقم ایڈوانس میں وصول کرکے سپلائی کاغذوں میں دکھائی گئی۔ 

نیب کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ایم ایس ڈی میں ادویات و طبی آئٹمز کی خریداری کی تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ 

نیب کے مطابق ملزم سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایم ایس ڈی ڈا کٹر ذوالفقار علی بلوچ نے میڈیکل ٹیکنیشن اینڈ پروپرائٹر علی عمر انٹر پرائزز ، خالد بھٹی اور فقیر حسین کے ساتھ مل کر بیپرا رولز کی خلاف ورزی کی۔ 

ملزمان کو احتساب عدالت کے جج منور شاہوانی کے رو برو پیش کیا گیا، نیب کی استدعا پر احتساب عدالت نے ملزمان کو 12روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔ 

دوسری جانب بلوچستان کے ہسپتالوں کو ادویات فراہم کرنے والے ادارے میڈیکل سٹورڈپو ( ایم ایس ڈی ) کے انچارج کے مطابق ادارے میں بدعنوانی کے روک تھام کے لیے اقدامات شروع کردئیے گئے ہیں۔ 

میڈیکل سٹورڈپو ( ایم ایس ڈی )کے انچارج ڈاکٹر فہیم آفریدی نے بتایا کہ ایم ایس ڈی میں تمام ادویات کو بار کوڈ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

 ڈاکٹر فہیم کے مطابق بارکوڈ لگانے سے ہمیں معلوم ہوگا کہ کونسی ادویات کب خریدی گئیں اورکہاں کہاں سپلائی ہوئیں جس سے اس میں کرپشن روکنے میں بہت مدد ملے گی۔ 

میڈیکل سٹور ڈپو( ایم ایس ڈی ) کے انچارج نے مزید بتایا  کہ ادویات کی انٹری کے نظام کو بھی جدید کیا جارہاہے جس کے لیے سافٹ ویئر بن گیا ہے۔ 

ڈاکٹر فہیم کے بقول سافٹ وئیر کے ذریعے ہمیں معلوم ہوگا کہ کونسی ادویات سٹور میں آئی ہیں،تعداد کتنی ہے،کیا یہ زائد المعیاد ہورہی ہیں اور ان کی قیمت کیا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر فہیم نے بتایا کہ میڈیکل سٹورڈپو ( ایم ایس ڈی ) کا ٹینڈر کا سب سے پیچیدہ طریقہ ہے جس کے باعث اس میں ہمیں کم از کم تین ماہ لگ جاتے ہیں۔ 

میڈیکل سٹورڈپو(ایم ایس ڈی) مختلف ادویات،گولیاں اور انجکشن کے تین ہزار آئٹمز کی خریداری کرتی ہے۔ 

ڈاکٹر فہیم نے بتایا کہ میڈیکل سٹورڈپو سے ادویات صرف بلوچستان کےضلعوں کو فراہم کی جاتی ہیں جبکہ کوئٹہ کے بڑے سرکاری ہسپتال اپنی ادویات کی خریداری خود کرتے ہیں۔ ہم انہیں ادویات کی قیمتوں کی فہرست دیتے ہیں۔ 

 میڈیکل سٹورڈپو( ایم ایس ڈی) کے انچارج ڈاکٹرفہیم سمجھتے ہیں کہ ڈیجیٹل نظام سے نہ صرف کرپشن کو روکنے میں مدد ملے گی بلکہ ادویات کی متعلقہ علاقوں کو فراہمی بھی بروقت ممکن ہوسکے گی۔ 

ڈاکٹرفہیم نے مزید بتایا کہ اس اقدام سے ہسپتالوں میں ادویات کی غیرقانونی فروخت کا راستہ بھی رک جائے گا۔اورہم کہیں بھی بیٹھ کرادویات کی نقل و حمل کو چیک کرسکیں گے۔ 

میڈیکل سٹورڈپو کے انچارج کے بقول ہمارا آئندہ آنےوالا ادویات کی خریداری کا ٹینڈر آن لائن ہوگا جس میں تمام نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں حصہ لے سکیں گی۔ 

کسی بھی ادارے میں بدعنوانی کومکمل روکنا طویل صبرآزما عمل ہے لیکن ایم ایس ڈی کے ذمہ داران سمجھتے ہیں کہ ان کی ادارے کو جدت کی طرف لانے سے بہت سے خامیوں کو کم کرنےمیں مدد ملےگی۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت