ریپ کا لائسنس ریپسٹ کو ہم نے خود دیا

قانون کی حکمرانی بحیثیت معاشرہ ہمیں صرف اسی وقت یاد آتی ہے جب واقعات میں سنسنی کا عنصر شامل ہو جائے جو عوام کو متاثر کرے-

ریپ ہونے والے کے لیے اس حادثے کو بدنامی کا سبب بنا کر معاشرے نے ریپسٹ کے ہاتھ میں لائسنس تھما دیا ہے۔ قانون پر سختی سے عمل کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں میں تبدیلی بھی اہم ہے۔

اطلاعات کے مطابق موٹروے پر ریپ ہونے والی خاتون نے پولیس سے التجا کی ہے کہ ان کی شناخت کو ہرممکن سامنے نہ لایا جائے۔ انہوں نے پاکستان میں کسی قسم کے عدالتی عمل میں شرکت سے بھی معذرت کی ہے۔ ہم جانتے ہیں، ہمارے معاشرے میں ہرریپ ہونے والی کا رویہ یہی ہو گا اور اس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔

بدقسمتی سے ہماری روایات اور اقدار کے مطابق ریپ ہونے والا یا کسی بھی قسم کے جنسی حملے کا شکار ہونے والا دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ اگر ریپ کا شکار ہونے والی کنواری ہو تو گھر والوں کے سامنے یہ سوال منہ کھول کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ اس سے شادی کون کرے گا؟ اس طرح معاشرے میں یہ تصور عام ہے کہ لڑکی صرف ریپ نہیں ہوتی بلکہ اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ ایسے میں کتنے متاثرین ہیں جو رپورٹ کرنا چاہیں گے؟ ریپ ہونے والے کے لیے اس حادثے کو بدنامی کا سبب بنا کر معاشرے نے ریپسٹ کے ہاتھ میں ریپ کرنے کا لائسنس تھما دیا ہے۔ کیا ہمیں اس حوالے سے سماجی رویوں میں تبدیلی کی ضرورت نہیں؟ اس معاملے پر ہم کب بات کریں گے؟

یہ ہمارے وہ معاشرتی تصورات اور بیانیے ہیں جسے بدلنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن بھی ہے۔ ہم اونٹ کو نگلنے اور زیرے کو چھاننے والے لوگ ہیں۔ موٹروے کے ریپ کیس پر عوام، پاکستانی ریاست اور پولیس کو گالیاں دے رہے ہیں۔ پھانسی کا مطالبہ بلند آواز سے کر کے گلا پھاڑ رہے ہیں۔ اس امر سے کسی کو انکار نہیں کہ قوانین سخت ہونے چاہییں اور ان پر عمل بھی ہونا چاہیے لیکن کبھی یہ سوچا کہ ریپ کے حوالے خود ہمارے معاشرتی رویے کتنے بدنما ہیں؟

ہم نے اس جرم کو ریپ ہونے والے کے لیے بدنامی کا باعث بنا رکھا ہے۔ ہم جو لفظ اس حادثے کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ ہے ’عزت لٹنا‘ اور یہ عزت اس کی لٹتی ہے جس کا ریپ ہوتا ہے، جس کے ساتھ یہ زیادتی ہوتی ہے۔ اس کی نہیں جو زیادتی کرتا ہے۔

میرا پھر وہی سوال ہے کہ کیا ریپ ہونے والے نے کوئی گناہ کیا ہوتا ہے کہ اسے منہ چھپانا پڑے؟ اور کیا شناخت چھپا کرعدالت تو چھوڑیے، کوئی اپنے گھر یا خاندان میں بھی آواز اٹھا سکتا ہے؟ اس ناانصافی پر مبنی سماجی رویے کے باعث ریپسٹ تو معزز ہی رہتا ہے، بیچاری ریپ ہونے والی اور اس کے گھر والے اپنی عزت کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وطن عزیز کے بعض علاقوں میں جو زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں، وہ بےعزتی کی وجہ یعنی اپنی بے قصور بیٹی کو ہی غیرت کے نام پر ختم کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہماری معاشرتی اقدار ہمیشہ ظلم کرنے والے ہی کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے طلاق کو کلنک کا ٹیکہ بنا کر معاشرے نے سسرال والوں اور شوہر کے ہاتھ میں ظلم کرنے کا لائسنس تھما دیا ہے کہ ہمیں معلوم ہے بہت سی بچیاں ہر طرح کا ظلم سہہ لیں گی، لیکن خود کو اور اپنے والدین کو اس ٹیکے سے بچانے کے لیے آواز نہیں بلند کریں گی اور کبھی طلاق کا مطالبہ نہیں کریں گی۔

اسی طرح ایک عام پاکستانی بیانیہ یہ ہے کہ سکیورٹی اداروں کو قانون توڑنے کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ وہ دشمن اور غداروں سے ہمارا دفاع کرتے ہیں۔ لیکن جب زینب، حیات بلوچ، یا موٹروے جیسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو چیخ چیخ کر ملزم کو پھانسی چڑھانے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ ان واقعات کے انسداد کے لیے دور رس اقدامات کیا کیے جا سکتے ہیں۔

قانون کی حکمرانی بحیثیت معاشرہ ہمیں صرف اسی وقت یاد آتی ہے جب واقعات میں سنسنی کا عنصر شامل ہو جائے جو عوام کو متاثر کرے۔ یاد رکھیں عوام کے جذبات ان معاملات میں جتنی تیزی سے بھڑکتے ہیں اتنی ہی تیزی سے راکھ میں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔

پتہ نہیں کتنے لوگوں کو 2005 میں سونیا ناز نامی خاتون کے ساتھ حراست میں پیش آنے والا ایک ریپ کیس یاد ہو۔ ان خاتون کو جو اپنے شوہر کی گمشدگی کے خلاف پولیس سے بھڑ گئیں، اب کوئی بات نہیں کرتا۔ پولیس افسران کا تو کیا بگڑتا، ان خاتون کو ان کے اسی شوہر نے باہر آنے کے بعد طلاق دے دی اور بعد ازاں وہ یہ کہتی پائی گئیں کہ انہیں انصاف نہیں بلکہ اپنی اور اپنے بچے کی زندگی چاہیے۔

ریپ ہونے کے بعد طلاق کوئی انہونا واقعہ نہیں۔ ایسے میں کتنی خواتین اپنا مقدمہ عدالت میں لے کر جائیں گی؟ اگر بات باہر آ بھی جائے تو ریپ میں ملوث مرد کا کچھ نہیں بگڑتا، لیکن عورت کی زندگی واقعی تباہ ہو جاتی ہے۔ ایسے سماجی رویوں کے باعث پولیس چھوڑ کوئی گھر، خاندان میں رپورٹ کرنا نہیں چاہتا اور یہ معاملہ بہت حد تک عورتوں کے ساتھ نفرت کے رویے سے جڑا ہوا ہے۔ جس پر اب کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا قانون کی حکمرانی صرف ریپ اور وہ بھی موٹر وے پر ہونے والے ریپ کے لیے ہی اہم ہے؟ صرف یہیں ہمیں حساسیت کی ضرورت ہے؟ کیا ریپ کے علاوہ ہماری بچیاں روزانہ کی بنیاد پر جو جنسی حملے پبلک ٹرانسپورٹ اور رش کے مقامات پر برداشت کرتی ہیں، معاشرہ اس کے لیے بھی اتنا ہی حساس ہے؟ جنسی ہراسانی کی بات آئے تو ایک بہت بڑے طبقے کے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں یہ خیالات ہیں کہ اس میں قصور لڑکیوں کا ہی ہوتا ہے۔ معاشرے کی عمومی سوچ یہ ہے کہ یہ لڑکیاں اس لیے ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں کہ ان کے کپڑے نامناسب ہوتے ہیں۔ یا وہ غلط مقامات پر غلط موقعوں پر موجود ہی کیوں ہوتی ہیں؟

میں چار سال سے مسلمان بچوں میں جنسی تعلیم کی ضرورت اور مسلم معاشروں میں خواتین و در پیش ایسے باریک اشوز پر لکھنے کی کوشش کر رہی ہوں جو اب تک مکالمے کا حصہ نہیں بن سکے۔ جنسی ہراسانی پر ایک مفصل فیچر کی دائیں بازو کے ایک جریدے میں اشاعت کے کچھ عرصے بعد ایڈیٹر نے مجھے بتایا کہ آپ کے مضمون کے بارے میں ہمیں کئی فون موصول ہوئے۔ زیادہ تر مرد مضمون کے مواد سے متفق تھے اور کچھ کو اختلاف بھی تھا۔ لیکن خواتین کی اکثریت کا یہ کہنا تھا کہ جنسی ہراسانی کے واقعات میں قصور خواتین کا ہی ہوتا ہے۔ یعنی خواتین کی ایک معقول تعداد خود اس مسئلے کو اب تک ماننے کے لیے ہی تیار نہیں۔

افسوس یہ دیکھ کر بھی ہوتا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے اس ملک میں معاشرتی بیانیہ پردہ اور شرم و حیا (صرف عورت کے لیے) پر تو بہت زور دیتا ہے مگر بات اگر غض بصر (نظر جھکا کر رکھنا) کے قرانی حکم کی آئے تو بہت سے دیندار لوگوں کو بھی اس کا مطلب سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ معاشرتی بیانیہ جنسی ہراسانی کے معاملے میں بھی جرم کرنے والے کو کھلی چھٹی دیتا ہے۔

موٹروے پر بہت زیادہ شور کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سب سے زیادہ ریپ اور جنسی حملے تو گھروں میں ہوتے ہیں اور قریبی رشتے داروں، خاندانی دوست اور پڑوسیوں کے ہاتھوں یا مدرسے، سکول، ٹیوشن سنٹر یا محلے کی دکان میں۔ اور سب سے زیادہ جنسی حملوں کا نشانہ کم عمر بچے ہوتے ہیں جس کے بارے میں درندہ صفت ریپسٹ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کبھی بھی زبان نہیں کھولیں گے۔

ایک شادی شدہ عورت یا بالغ عورت بھی کچھ حالات میں اتنی مجبور ہوتی ہے کہ زبان نہیں کھول سکتی لیکن ایک بچے یا بچی کو تو ہم نے بالکل ہی اعتماد نہیں دیا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی نازیبا طرز عمل کی شکایت والدین، ٹیچر یا کسی ذمہ دار بڑے سے کر سکے۔

اس حوالے سے جنسی تعلیم یعنی بچے کو اس بات کی آگاہی دینا کہ یہ تمھارے پرائیویٹ پارٹس ہیں اور انہیں کوئی ہاتھ لگانے کی کوشش کرے تو تمہیں کیا کرنا ہے۔ کس طرح دوسرے کی معاشرتی سٹیٹس کی پروا کیے بغیر شور مچانا ہے۔ بچے کو یہ اعتماد بھی دینے کی کوشش کرنی ہے کہ اگر کسی نے تمھارے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو یہ اس کے لیے شرمندگی کی بات ہے، تمہارے لیے نہیں۔ لیکن جنسی تعلیم کے حوالے سے بھی معاشرتی سوچ ابھی بھے نہ پختہ ہے اور اسے بے حیائی پھیلانے کی سازش قرار دیا جاتا ہے۔

یہ چھوٹی سی بات معاشرے کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ منہ ریپ کرنے والے یا جنسی حملہ کرنے والے کو چھپانا چاہیے، ریپ ہونے والے کو نہیں۔ اور یہ جبھی ہو گا جب معاشرتی اقدار بدلیں گی۔ اس کام میں یقیناً بہت وقت لگے گا لیکن اگر صحیح سمت میں ہو اور ملک کی انٹیلی جینشیا یعنی صحافی، ادیب، ڈراما رائٹر، فلم بنانے والے، مسجد کے خطیب، مذہبی قیادت کرنے والے یعنی معاشرے کے وہ افراد جو اس کے بیانیے پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہوں۔

سوشل میڈیا پرغصے میں آ کر ریاست کو برا بھلا کہنا، مجرم کو عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ آسان ہے، اس لیے ہر کوئی یہ کام کر رہا لیکن جو کام مشکل ہے وہ سماجی رویوں میں تبدیلی لانا ہے۔ اس کے لیے آواز اٹھانے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب سماج میں بدنامی کے ڈر سے ریپ ہونے والے کو اس کے گھر والے زندگی بھر زبان نہ کھولنے دیں تو قانون کیا کر سکتا ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ