ترکی کے کاریگر، راجستھان کا سنگ مرمر اور سوات کا سفید محل

24 کمروں پر مشتمل وائٹ پیلس وکٹورین فن تعمیر کا ایک نمونہ ہے، جسے سوات کے والی نے 1941 میں تعمیر کروایا۔

وادی مرغزار مینگورہ کے جنوب میں 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

وائٹ پیلس کی تعمیر کا فیصلہ والی سوات میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب نے 1935 میں کیا اور 1941 میں تعمیر کا کام مکمل کرلیا گیا۔ آج یہاں ہر روز ملکی اور غیر ملکی سیاح ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں اور حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 

میاں گل شہریار امیر زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1920 اور30 میں ان کے پردادا، سوات کے پہلے والی، میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب کلکتہ جا رہے تھے، راستے میں ان کا قیام راجستھان کے ایک راجہ کے ہاں ہوا۔ اب راجھستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر ریگستان زیادہ ہے، وہاں شدید گرمی کی وجہ سے سنگ مرمر کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے کہ وہ ایک ٹھنڈا اثر رکھتا ہے۔ چار پانچ دن رہنے کے بعد جب باچہ صاحب وہاں سے آگے گئے تو انہوں نے اس جگہ کی بہت زیادہ تعریف کی۔ وہ کلکتہ سے واپس آئے، تین چار مہینے بعد اسی راجہ سے سنگ مرمر منگوایا، کاریگر بلوائے اور یہ محل بنوا ڈالا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام سے پہلے جب سوات ایک ریاست تھی، اس زمانے میں ریاست کے ملکہ الزبتھ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، ان کا سوات آنا جانا ہوا کرتا تھا۔ باہمی تعلقات کی وجہ سے دونوں ریاستوں کے مابین برآمدات ہوتی رہتی تھیں ۔ اسی وجہ سے وائٹ پیلس کی عمارت کا سازوسامان لندن سے برآمد کیا گیا۔ سوات میں والی سوات کے وقت میں بنائے گئے ہسپتال، سکول اور سڑکوں کے اوپری کھمبوں کا تعمیراتی کام بھی برٹش آرکیٹیکچرز نے کیا تھا، جس میں زیادہ تر آج بھی موجود ہے۔

وائٹ پیلس 24 کمروں پر مشتمل ہے اور یہ وکٹورین فن تعمیر کا ایک نمونہ ہے۔ پیلس کی تعمیر ترکی کے کاریگروں نے کی۔ مرغزار ایک تنگ وادی ہے، اس پر دھوپ کم پڑتی ہے جس کے نتیجے میں اس وادی میں گرمی کے موسم میں بھی ٹھنڈ پڑتی ہے۔

محل کی موجودہ حالت کے بارے میں میاں گل شہریار امیرزیب کا کہنا ہے کہ یہاں بنے ہوٹل سمیت اسے لیز پر دیا گیا تھا، قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد جب یہ محل ان کے پاس واپس آیا تو وہ اس کو اپنی پرانی حالت میں بحال کر دیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا