دو سال بعد بھی خیبر پختونخوا کے آئمہ کو 10  ہزار وظیفہ نہ مل سکا

صوبے بھر کی مساجد کے اماموں کو ماہانہ اعزازیے کا فیصلہ جنوری 2018 میں ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا تھا جس کی سربراہی سابق وزیر اعلٰی پرویز خٹک نے کی تھی۔

(اے ایف پی)

خیبر پختونخوا  میں پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت  نے 2018 میں صوبے بھر کی مساجد کے اماموں کے لیے 10 ہزار روپے ماہانہ اعزازیے کا اعلان کیا تھا۔

تقریباً  دو  سال پورے ہونے کو ہیں لیکن ابھی تک آئمہ کے ساتھ  کیا گیا یہ وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔

آئمہ کو ماہانہ اعزازیے کا فیصلہ جنوری 2018 میں ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا تھا جس کی سربراہی سابق وزیر اعلٰی پرویز خٹک نے کی تھی۔

دوران اجلاس اس بات کی منظوری دی گئی تھی کہ صوبے بھر میں رجسٹرڈ آئمہ جن کا تعلق کسی کالعدم تنظیم سے نہ ہو اور کسی جرائم میں ملوث نہ ہوں،  ان کو حکومت کی جانب سے 10 ہزار روپے اعزایہ دیا جائے گا۔

اس وقت کے کابینہ اجلاس کے بعد محکمہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے محکمہ اوقاف کو ایک مراسلہ بھی بھیجا گیا تھا جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے۔

اس مراسلے میں محکمہ اوقاف کو بتایا گیا ہے کہ وہ کابینہ کے اس فیصلے کے رو سے ضروری کارروائی مکمل کریں اور کابینہ کے اس فیصلے پر عمل درامد یقینی بنایا جائے۔

کابینہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ محمکہ خزانہ اس مد میں سال 2017-18 کے بجٹ میں فنڈ مختص کرے اور ساتھ میں آئندہ مالی سال میں بھی اسی پروگرام کے لیے فنڈ مختص کیے جائیں اور آئمہ کا ڈیٹا جمع کرنے کی ذمہ داری ہوم ڈیپارمنٹ  اور سپیشل برانچ کو تفویض کی گئی تھی۔

اسی مقصد کے لیے اکتوبر 2019 میں محکمہ اوقاف نے ایک فنڈ فلو میکینزم بھی بنایا تھا اور اس کو محکمہ خزانہ کے ساتھ شئیر کیا گیا تھا تاکہ اس پروگرام کے لیے محکمہ خزانہ کی جانب سے فنڈ ریلیز کیا جا سکے تاہم دو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن ابھی تک ان آئمہ کو اعزازیہ دینا شروع نہیں کیا گیا۔

اسی سلسلے میں 13 ستمبر کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی رکن اسمبلی سردار اورنگزیب نے ایک سوال بھی داخل کروایا تھا جس کے جواب میں اسمبلی کو بتایا گیا کہ صوبے بھر میں تقریباً22 ہزار آئمہ کا ڈیٹا جمع کیا گیا لیکن ابھی تک کسی کو بھی یہ اعزازیہ نہیں دیا گیا کیونکہ اس مقصد کے لیے محکمہ اوقاف نے ایک فنڈ فلو میکینزم بنایا ہے اور اس کو اکاؤنٹنٹ جنرل دفتر کے ساتھ شئیر کیا گیا جو زیر غور ہے اور ابھی تک اس کے لیے کوئی  فنڈ مختص نہیں کیا گیا ہے۔

پشاور کے ایک مسجد کے خطیب جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ  دو سال ہوگئے لیکن ابھی تک ان کو حکومت کی جانب سے ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ کب تک یہ اعزازیہ شروع کیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا ، ' ا یک سیاسی بیان سابق وزیر اعلٰی نے دیا تھا لیکن  کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا ہے۔ '

اعزازیے کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض آئمہ جن کا تعلق کچھ سیاسی پارٹیوں سے بھی ہے نے اس اعزایے کو لینے سے انکار کیا تھا اور انھوں نے اس کے لیے کوئی فارم بھی جمع نہیں کیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حکومت اس طریقے سے علما کو خریدنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مفتی جمیل خان کا تعلق ضلع کرم سے اور اپنے علاقے میں ایک مدرسہ چلا رہے ہیں جہاں پر  انھوں نے ایک امام بھی رکھا ہے جن کو چندہ جمع کرکے تنخواہ دی جا رہی ہے۔

مفتی جمیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کے اعلان کے بعد یونین کونسل سیکرٹری کی مدد سے ہر علاقے میں آئمہ کا ڈیٹا جمع کیا گیا اور آئمہ نے فارم بھی جمع کروائے لیکن اس کے بعد کسی قسم کا رابطہ حکومت کی جانب سے نہیں کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ  اس اعزازیہ سے آئمہ کو فائدہ اس لیے ہوگا کیونکہ جتنے بھی امام ہیں ان کو علاقے کے لوگ بہت کم تنخواہ دیتے ہیں جو دو ہزار سے لے کر چھ ہزار تک ہے جس میں آج کل  کے زمانے میں گزارہ کرنا بہت مشکل ہے ۔

مفتی نے بتایا  ' اس اعزازیے سے اتنا ہوگا کہ آئمہ کی کچھ بنیادی ضروریات پوری ہوں گی  کیونکہ بعض آئمہ کا تعلق بہت غریب گھرانوں سے ہوتا ہے اور ان کے علاقے میں چندہ اکھٹا کر کے ان کو تنخواہ دی جاتی ہے جو بہت کم ہوتی ہے۔ '

اس سلسلے میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا اور صوبائی مشیر اطلاعات کامران بنگش سے انڈپینڈنٹ نے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔

صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے رکن شاہ فیصل اور عبدالغفور سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے بھی فون نہیں اٹھایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان