انتخابات 2020 اور پاکستان امریکہ تعلقات کا مستقبل

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت لین دین کی حیثیت کی ہے۔جب دونوں ممالک کے درمیان مفادات کا تبادلہ ہوتا ہے تو وہ اچھے تعلقات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک پولنگ سٹیشن کا منطر (تصویر: اے ایف پی)

امریکہ میں 59 ویں صدارتی انتخابات آج بروز منگل (3 نومبر) کو ہو رہے ہیں، جہاں ڈیموکریٹک نامزد امیدوار جو بائیڈن مٹھی بھر امریکی ریاستوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں بہت کم مارجن کے ساتھ آگے ہیں۔

جو بائیڈن کی جیت کے لیے آج 538 انتخابی ووٹوں میں سے 270 ووٹوں کی ضرورت ہے لیکن فیصلہ کن ووٹ ممکنہ طور 11 ریاستوں سے آئیں گے۔

یہ ریاستیں ایریزونا، فلوریڈا، جارجیا، آئیووا، مشی گن، نیواڈا، نارتھ کیرولینا، پنسلوینیا، اوہائیو، ٹیکساس اور وسکونسن ہیں۔

یہ سوئنگ ریاستیں ان دونوں میں سے کسی کے بھی حق میں ہوسکتی ہیں۔ تجزیہ کار بھی اس بارے میں کوئی ٹھوس پیش گوئی کرنے سے قاصر ہیں جیسا کہ 2016 کے انتخابات میں تمام نمبرز اور پولز کے نتائج دھرے کے دھرے رہ گئے تھے اور اصل نتیجہ ایک دم مختلف تھا جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بن کر سامنے آئے تھے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ امریکی انتخابات عالمی دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے، جو اب بھی واحد سپر پاور ہے، مضبوط ترین معیشت کا حامل ہے، جدید فوج اور آلات کو رکھتے ہوئے، سائنس اور ٹیکنالوجی کابھی قائد ہے اور واضح طور پر قدیم ترین جمہوریت ہے۔

اس وقت کرونا (کورونا) وائرس کے ساتھ دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے اور قیادت اور جمہوریت سب ایک سال میں بے نقاب ہوچکے ہیں۔ یہ تمام تر تبدیلیاں آنے والے امریکی صدر کے لیے ایک چیلنجنگ ماحول پیدا کریں گی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مدت تک 'امریکہ فرسٹ' (سب سے پہلے امریکہ) کے نقطہ نظر کو جاری رکھنے کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے دوبارہ تعمیر نو کے لیے مہم چلائی ہے۔

امریکی صدارتی امیدواروں کے انتخاب اور انتخابات کی منصفانہ اور ساکھ کا اثر دنیا بھر میں پڑا ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ بیشتر ممالک انتخابی مہم، پالیسی بیانات اور صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹک نامزد امیدوار جو بائیڈن کے تبصروں کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔

اسی طرح اس وقت پاکستان، چین کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار رکھے ہوئے ہے لیکن وہ مغرب میں اپنے سب سے بڑے اتحادی کو فراموش نہیں کرسکا۔

پاکستان کے نقطہ نظر سے ہم ہمیشہ یہ سنتے ہیں کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کون  ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر بننے والا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مابین ریاستی پالیسی تبدیل نہیں ہوتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت لین دین کی حیثیت کی ہے۔ جب دونوں ممالک کے درمیان مفادات کا تبادلہ ہوتا ہے تو وہ اچھے تعلقات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں میں خاص طور پر، دوطرفہ تعلقات میں مختلف عروج اور زوال دیکھنے کو مل رہے ہیں، لیکن دونوں ممالک بعض معاملات کو توڑ مروڑ کے ایک دوسرے کی قربت میں مشغول رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی سکیورٹی امداد کے حوالے سے 'جھوٹ اور دھوکہ دہی' والی ٹویٹ کا سامنا کرنے کے بعد، پاکستان افغان امن عمل میں امریکہ کا فرنٹ مین بن گیا، جس نے دونوں ریاستوں کو افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے مل کر کام کرنے کا اہل بنا دیا ہے جبکہ پاکستان نے امریکی فوج کو افغانستان سے مکمل باہر جانے کے لیے افغان طالبان کو میز پر لانے میں اپنے کردار کا اعتراف بھی کیا۔

طالبان سے مذاکرات کی یہ صورت حال کہیں نہیں جانے والی، خواہ اقتدار میں کوئی بھی آئے، تاہم امریکی انتخابات کے بعد باہمی فائدہ مند تعلقات اور قطر کے جذبے کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ تعلقات کو  وسعت دینا ضروری ہوگا۔

وزیر اعظم عمران خان گذشتہ سال امریکہ کے سرکاری دورے کے دوران صدر ٹرمپ کے ساتھ اچھے ذاتی تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، لیکن اس کی بنیادی وجہ طالبان امن مذاکرات ہی تھے۔

امریکہ اور پاکستان کو مستقبل میں باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے مستقل عمل کی ضرورت ہوگی، تاہم امریکہ کے لیے مسئلہ کشمیر کی بات کرنے اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ اور بھارت کی دھمکیوں کے حوالے سے پاکستان کے خدشات پر غور کرنا بھی ضروری ہوگا۔

امریکہ کو کم سے کم چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کو قبول کرنے پر غور کرنا پڑے گا کیونکہ امریکیوں کی طرح ہر ریاست پہلے اپنے مفاد کو برقرار رکھنے کے لیے آزاد ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ