فیس بک کو وٹس ایپ، انسٹاگرام فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا؟

امریکہ میں فیس بک کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان مقدمات میں انسٹاگرام اور وٹس ایپ کی خریداری کے ذریعے فیس بک پر ٹیکنالوجی انڈسٹری پر غیر منصفانہ طور پر غلبہ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

فیس بک نے اپنی طرف سے یہ استدلال کیا کہ قواعد 'کامیاب کمپنیوں' کو سزا دینے کے لیے  استعمال ہورہے ہیں   (فائل تصویر: اے ایف پی)

امریکی حکومت اور تقریباً ہر امریکی ریاست کی جانب سے فیس بک کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کی وجہ سے کمپنی کا کام کرنے کا بنیادی طریقہ کار تبدیل ہوسکتا ہے۔

ان مقدمات کا تعلق فیس بک کے چلانے کے طریقے سے ہے اور انسٹاگرام اور وٹس ایپ کی خریداری کے ذریعے فیس بک پر ٹیکنالوجی انڈسٹری پر غیر منصفانہ طور پر غلبہ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ تینوں مختلف ایپس کو الگ کردینا چاہیے، جو ٹیکنالوجی کی صنعت میں اب تک کی سب سے نمایاں تبدیلی کے مترادف ہوگا۔

لیکن اس تبدیلی کے ان لوگوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے جو فیس بک، وٹس ایپ یا انسٹاگرام استعمال کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں فیس بک نے ایسی تبدیلیاں کی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی تبدیلی کی اہمیت ہمیشہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔

فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس کمپنی کو توڑنے کی کوشش ایک خطرہ ہوسکتی ہے اور ان کے ان بیانات سے کہ، وہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ممکن حد تک جائیں گے، یہ واضح ہوتا ہے کہ نئے مقدمات کی وجہ سے کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔

فیس بک پر کیا الزام ہے؟

قانونی چارہ جوئی میں وکلا کا استدلال ہے کہ جب کسی چیز کے حصول کی بات ہو تو فیس بک نے 'خریدو یا دفن کرو' کی حکمت عملی استعمال کی ہے۔ جب اس کمپنی نے ترقی کی اور دیگر کمپنیاں بھی اس کے مقابلے پر آئیں تو فیس بک اپنے حریفوں کو دھکیلنے کے لیے اپنی وسیع طاقت کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوا۔

46 ریاستوں کے اتحاد کی جانب سے نیویارک کے اٹارنی جنرل لیٹیا جیمس نے کہا: 'تقریبا ایک دہائی کے دوران فیس بک نے اپنے تسلط اور اجارہ داری کی طاقت کو چھوٹے حریفوں کو کچلنے اور  مسابقت کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔' واشنگٹن، ڈی سی، الاباما، جارجیا، جنوبی کیرولائنا اور ساؤتھ ڈکوٹا نے قانونی چارہ جوئی میں حصہ نہیں لیا۔

اس مقدمے میں خاص طور پر انسٹاگرام اور وٹس ایپ کے حصول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو پہلے ہی بہت بڑی ایپس تھیں اور فیس بک کی جانب سے خریدے جانے کے بعد ان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا۔ لیکن فیس بک ہر وقت بہت سی کمپنیاں خریدتی ہے۔

فیس بک نے اپنی طرف سے یہ استدلال کیا کہ قواعد 'کامیاب کمپنیوں' کو سزا دینے کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور یہ کہ یہ مقدمات تاریخ کو دہرا رہے تھے۔ فیس بک کے جنرل وکیل جینیفر نیوز اسٹڈ نے کہا: 'حکومت اب ایک کام کرنا چاہتی ہے، جس سے امریکی کاروباروں کو یہ انتباہ بھیجا گیا ہے کہ فروخت کبھی بھی حتمی نہیں ہوتی ہے۔'

کیا ہوسکتا ہے؟

ریگولیٹرز کا کہنا ہے کہ وٹس ایپ اور انسٹاگرام کے حصول کو 'غیر منطقی' ہونا چاہیے تاکہ انہیں فیس بک سے الگ کر دیا جائے اور انہیں دوبارہ الگ کمپنیوں کی حیثیت سے چلانے کی اجازت دی جائے۔

اس طرح کا حل کسی بھی کمپنی کے لیے ایک غیر معمولی اور گہری تجویز ہوگا اور بنیادی طور پر ٹیکنالوجی کی صنعت کے کام کرنے کے طریقے کو تبدیل کرے گا۔

فیس بک کی داخلی چیٹ پر شائع ہونے والے تبصروں میں مارک زکربرگ نے کہا کہ وہ قانونی چارہ جوئی کے نتیجے میں 'انفرادی ٹیموں یا کرداروں پر کسی قسم کے اثر انداز ہونے' کی توقع نہیں کرتے تھے، جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ 'اس عمل میں سالوں لگ سکتے ہیں۔'

لیکن یہاں تک کہ اگر ٹوٹ پھوٹ کا امکان نہیں ہے اور ایک طویل وقت کے بعد بھی اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اب بھی ممکن ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت زیادہ اہم ہوگا۔

صارفین کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟

دوسری جانب، سب سے زیادہ ڈرامائی بریک اپ بھی صارفین کے لیے اہم نہیں ہوسکتا۔ فی الوقت کمپنیاں بڑے پیمانے پر خود مختار اداروں کی حیثیت سے کام کرتی ہیں، بعض اوقات ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت بھی کرتی ہیں اور ایسی کوئی واضح باتیں نہیں ہیں جو ان کے مابین بدلی جائیں۔

تاہم، فیس بک کی جانب سے حالیہ تبدیلیوں کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ کمپنی ایپس کو زیادہ مربوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ وہ زیادہ مضبوطی سے ایک دوسرے سے منسلک ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے مزید انٹروپریبلٹی (کمپیوٹر سافٹ ویئرز کے مابین معلومات کا تبادلہ) کی اجازت دی جاسکتی ہے ، تاکہ لوگ فیس بک اور انسٹاگرام کے میسجنگ پلیٹ فارم کے مابین پیغامات کا اشتراک کرسکیں۔ تھیوری کے مطابق اس سے نئے فیچرز کو تمام نئی ایپلی کیشنز میں ایک ساتھ پہنچنے کی اجازت ملتی ہے، کیونکہ ان کا انفراسٹرکچر ایک ہی ہوتا ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ کوئی توڑ پھوڑ یا علیحدگی زیادہ مشکل ہے، یہ وہ حقیقت ہے جس پر کچھ نقادوں نے استدلال کیا ہے، محض اتفاق نہیں ہے۔ جیسے جیسے ایپس زیادہ مضبوطی سے مربوط ہوتی جائیں گی انہیں علیحدہ کرنا بھی مشکل ہوجائے گا، جس سے کسی بھی ممکنہ ریگولیٹری کارروائی کا جواز پیش کرنے اور اس کی تکمیل کرنا زیادہ مشکل ہوجائے گا۔

اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اگر ان ایپس کا حصول غیر موزوں ہے تو ان تینوں ایپس کا مستقبل مزید غیر یقینی ہوگا۔ کسی بھی نظریاتی بریک اپ کے وقت تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ایپس کی پوزیشن کس جگہ پر ہوگی، یا ان کے لیے الگ ہونا تکنیکی لحاظ سے ممکن بھی ہوگا یا نہیں اور اس وقت تک ان کی جو بھی خصوصیات ہیں اسے برقرار رکھنا ہوگا۔

اس سے بھی زیادہ نامعلوم چیز یہ ہے کہ یہ ایپس فروخت ہونے کے بعد کیسے کام کریں گی۔ چاہے وہ آزادانہ طور پر چلائی جائیں یا دوسری بڑی کمپنیوں کو دے دی جائیں، ان کی پالیسیاں شاید نئی ملکیت کے تحت تبدیل ہوجائیں گی، جیسا کہ پہلے ہی ہوا ہے خاص طور پر واٹس ایپ کے ساتھ، جس میں فیس بک کی جانب سے خریدے جانے سے قبل پرائیویسی کے لیے سخت پالیسی تھی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی