فلم میں پولیس افسر کے ’ناشائستہ اشارے، فحش زبان‘، ڈائریکٹر گرفتار

فلم ڈائریکٹر انونو مامون اور اداکار شاہین مریدھا پر الزام ثابت ہونے کی صورت میں دونوں کو سات سال کی قید ہو سکتی ہے۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس نے کہا ہے کہ دونوں افراد کو ’ایسی فلم بنانے اور اس میں اداکاری کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے جس میں ناشائشتہ اور فحش ڈائیلاگ ہیں‘ (دی انڈپینڈنٹ)

بنگلہ دیش میں ایک فلم ڈائریکٹر کو فلم میں خواتین پر تشدد روکنے میں پولیس کی ناکامی دکھانے پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔ فلم کی وجہ سے پولیس افسران میں اشتعال پھیل گیا تھا۔

فلم ڈائریکٹر انونو مامون کو شاہین مریدھا کے ساتھ گرفتار کیا گیا جو ایک مقبول اداکار ہیں۔ انہوں نے 'نباب ایل ایل بی' نامی فلم میں اس پولیس افسر کا کردارادا کیا جو ریپ کا شکار خاتون سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس نے کہا ہے کہ دونوں افراد کو ’ایسی فلم بنانے اور اس میں اداکاری کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے جس میں ناشائشتہ اور فحش ڈائیلاگ ہیں۔‘

پولیس نے بیان میں مزید کہا کہ ’فلم میں پولیس افسر ناشائستہ اشارے اور فحش زبان استعمال کرتے ہوئے خاتون سے پوچھ گچھ کر رہے تھے۔ یہ اقدام صحت مند تفریح کے منافی ہے اور عوام میں پولیس کے بارے میں منفی خیالات پیدا کرے گا۔‘

پولیس نے کہا ہے کہ گرفتار ہونے والے دونوں افراد پر ’پورنوگرافک مواد پر مشتمل فلم بنانے‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

یہ الزام فلم کے ایک سین کی وجہ سے لگایا گیا ہے جس میں جنسی حملہ دکھایا گیا ہے۔ الزام ثابت ہونے کی صورت میں فلم ڈائریکٹر کو سات برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

پولیس نے کہا ہے کہ وہ 27 سالہ اداکارہ اور چیتا سپورشیا کو بھی گرفتار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جنہوں نے ریپ کا شکار خاتون کا کردار ادا کیا۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’فلم کا پلاٹ مکمل طور پر من گھڑت اور ناگوار ہے۔ وہ مکمل جھوٹ پر مبنی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش میں جنسی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ عین وسالش کینڈرا (مرکز برائے قانون و ثالثی) نے کہا ہے کہ جنوری اور ستمبر کے درمیان تقریباً 889 واقعات رپورٹ کیے گئے جن میں سے  پانچ گنا سے زیادہ اجتماعی زیادتی کے تھے۔

انسانی حقوق کے گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان واقعات سے متاثرہ کم از کم 41 خواتین جان سے گئیں۔ انسانی حقوق کی مہم چلانے والوں نے کہا ہے کہ 2018 میں ریپ کے 732 کیس رپورٹ کیے گئے۔

یہ تعداد 2019 میں بڑھ کر تقریبا ً دگنی 1413 کیس ہو گئی۔ اس سال اب تک تقریباً ایک ہزار کیس رپورٹ کیے جا چکے ہیں لیکن مہم چلانے والوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی نہیں کرتے کہ یہ مسئلہ کتنا بڑا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سی خواتین اتنی خوف زدہ ہوتی ہیں کہ وہ ریپ کو رپورٹ نہیں کرتیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ حکام ان سے زیادتی کرنے والوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائیں گے۔

بنگلہ دیش کے وزرا نے بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے خلاف مظاہروں کے جواب میں اکتوبر میں ریپ کیسز میں زیادہ سے زیادہ سزا بڑھا کر عمر قید سے سزائے موت کر دی ہے۔ سات افراد نے خاتون کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا اور اس کے خاوند کو مارا پیٹا جس کے بعد ستمبر کے آخر میں شمال مشرقی بنگلہ دیش میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا