ایٹمی معاہدے میں واپسی: ایران کا غیر رسمی مذاکرات سے انکار

وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران موجودہ وقت میں امریکہ اور ایٹمی معاہدے میں شامل یورپی ممالک سے غیر رسمی ملاقات کو مناسب نہیں سمجھتا۔

ایران کا کہنا ہے کہ ایسی کسی بات چیت سے پہلے امریکہ کو ایران پر عائد پابندیاں اٹھانا ہوں گی۔ (اے ایف پی فائل)

ایران نے سال 2015 کے جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کے ساتھ ایک غیر رسمی ملاقات کے خیال کو مسترد کر دیا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ ایسی کسی بات چیت سے پہلے امریکہ کو ایران پر عائد پابندیاں اٹھانا ہوں گی۔ 

ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ کا کہنا تھا: ’امریکہ اور تین یورپی طاقتوں کے حالیہ اقدامات اور بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران موجودہ وقت میں ان سے غیر رسمی ملاقات کو مناسب نہیں سمجھتا جیسے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے پیش کش کی ہے۔‘

امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے اس بیان پر مایوسی ہوئی ہے مگر وہ ’با مقصد سفارت کاری دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے‘ اور دوسری طاقتوں کے ساتھ مل کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے گا۔

دوسری جانب ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ ایران یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کے پیش کردہ منصوبے کا مطالعہ کر رہا ہے جس میں امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک کے ساتھ ایک بے ضابطہ ملاقات کا خیال پیش کیا گیا تھا۔

یاد رہے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2018 میں اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر پھر سے پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ 

نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ ایران سے اس معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن دونوں فریقین ابھی تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ پہلا قدم کون اٹھائے گا۔

ایران مطالبہ کرتا ہے کہ امریکہ کو پہلے پابندیاں اٹھانا ہوں گی جبکہ امریکہ ایران سے معاہدے پر مکمل عمل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جس کی ایران 2019 سے مرحلہ وار خلاف ورزی کر رہا ہے۔

وائٹ ہاوس کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن معاہدے میں ایک مشترکہ واپسی کی کوششیں جاری رکھے گا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس حوالے سے برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس سے مشاورت کرتے ہوئے ایک بہتر حکمت عملی پر غور کرے گا۔

ایک سینئیر امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایران کا انکار سفارتی عمل کا ایک حصہ ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نہیں سمجھتے کہ یہ اس کا اختتام ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ایران نے ملاقات سے منع کر دیا ہے لیکن ہم اس حوالے سے مزید سننے کے لیے تیار ہیں۔ اگر وہ اس بارے میں کوئی اور تجویز دیتے ہیں تو ہم اس پر بھی غور کریں گے۔‘

اس سے قبل ایران کے جوہری پروگرام کے سربراہ بین الااقوامی جوہری توانائی ایجنسی سے ایران کے خلاف امریکی قرارداد کی حمایت نہ کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق علی اکبر صالحی کا کہنا تھا کہ ’اگر آئی اے ای اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز ایران کے خلاف قرارداد کی حمایت کرتے ہیں تو ایران اس حوالے سے متناسب ردعمل دے گا۔‘

اس حوالے سے آئی اے ای اے کی رکن ریاستوں کو بھیجنے جانے والے خط میں ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو ایران آئی اے ای اے سے ایک ہفتہ قبل کیے جانے والے معاہدے کو ختم کر دے گا جس میں اس کی تنصیبات کی نگرانی کے طریقہ کار میں جزوی رد و بدل کیا گیا تھا۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کیا بورڈ اس قرارداد کی حمایت کرے گا یا نہیں۔

گذشتہ منگل کو ایران نے بین الااقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو ایران میں غیر اعلانیہ مقامات کے اچانک معائنہ کرنے سے روک دیا تھا۔ اس عمل کو اضافی پروٹوکول کا نام دیا گیا تھا۔  

لیکن 21 فروری کو ہونے والے معاہدے کے تحت ایران نے تین مہینوں تک اضافی ڈیٹا کا ریکارڈ برقرار رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا جو کہ سال 2015 کے معاہدے کے مطابق ہے جو کہ پابندیوں کے خاتمے پر بین الااقوامی توانائی ایجنسی کی دسترس میں دے دیا جائے گا۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ کا کہنا ہے کہ آئی اے ای اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو اس حوالے سے کسی قرار داد یا مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے کہ امریکہ اپنی یک طرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کو ختم کرے اور اپنے وعدوں پر عمل کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا