امریکہ نے افغانستان میں قیام امن کو تیز کرنے کی غرض سے کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان اشتراکِ اقتدار کا نیا فارمولا پیش کیا ہے، جس کے تحت دونوں فریقین کی شراکت سے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔
اس پیش رفت کو تجزیہ کار امریکہ کی جانب سے مسئلہ افغانستان کو اکیلے ہینڈل کرنے کی بجائے اس میں دیگر فریقین کو شامل کرکے ذمہ داریوں کا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
واشنگٹن نے شراکت اقتدار کے مجوزہ فارمولے پر مذاکرات کے لیے ایک مسودہ بھی تیار کیا ہے، جو افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے پیر کو کابل میں صدر اشرف غنی کی حکومت، تحریک طالبان افغانستان، پاکستان اور افغانستان میں قیام امن سے منسلک دوسری حکومتوں کے حوالے کیا۔
تاہم ابھی تک اس مسودے پر کسی فریق کا کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ افغانستان میں نجی حلقے البتہ اسے اسے کابل حکومت کے لیے ایک مشکل تجویز قرار دے رہے ہیں۔
نائب افغان صدر امر اللہ صالح مارشل قاسم فہیم کی ہلاکت کی ساتویں برسی کے موقع پر خطاب میں امریکی وزیر خارجہ کے خط پر ردعمل میں کہا کہ ’ہماری غربت اور معاشی مشکلات کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دنیا کے غیرحقیقی مطالبات تسلیم کر لیں۔ ہم امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے امداد اور قربانیوں کے لیے مشکور ہیں اور انہیں حق ہے کہ وہ کانفرنسیں منعقد کریں، طالبان سے مذاکرات کریں اور ہمیں خط لکھیں لیکن یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم اپنی عوام کے مستقبل پر سودا نہ کریں۔‘
امریکی مسودے کے دیباچے میں کہا گیا ہے: ’یہ (مسودہ) گورننس، سکیورٹی اور قانون کی حکمرانی کے کچھ اصول طے اور شراکت اقتدار کے لیے کچھ تجاویز پیش کرتا ہے، جو دونوں فریقین کو سیاسی حل تک پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے تاکہ جنگ ختم ہو سکے۔‘
دیباچے میں مزید کہا گیا کہ بہت سارے خیالات اور دونوں فریقین سے منسلک افغان باشندوں کی ترجیحات کی عکاسی کرنے کے علاوہ اس مسودے کا مقصد مذاکرات کاروں کو بعض بہت ہی بنیادی حل طلب مسائل پر توجہ دینے کی خواہش ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے چند روز قبل افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط کے ذریعے اس تجویز سے آگاہ کیا تھا۔
بلنکن نے اپنے خط میں لکھا تھا: ’ہم اقوام متحدہ سے خواہش کا اظہار کریں گے کہ افغانستان میں امن کے قیام پر اتفاق رائے کے لیے امریکہ، روس، چین، بھارت، ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس طلب کرے۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگلے مرحلے میں حکومت اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان ترکی کے شہر استنبول میں مذاکرات کا آغاز ہوگا، جن میں واشنگٹن کی شراکت اقتدار کی تجویز کی بنیاد پر گفتگو ہوگی۔ کابل حکومت کی جانب سے بلنکن کے خط کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
گذشتہ سال فروری میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق ایک معاہدہ ہوا تھا، جس میں طالبان اور کابل حکومت کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کے علاوہ بین الافغان مذاکرات اور یکم مئی تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر اتفاق ہوا تھا۔
دوحہ معاہدے کے تحت اسی سال ستمبر میں دوحہ میں کابل حکومت اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے، جو تاحال گفتگو کا ایجنڈا طے کرنے کے مرحلے پر ہی رکے ہوئے ہیں۔
پاکستانی تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر نے ہی امریکہ کو مجبور کیا کہ کوئی دوسرا فارمولا سامنے لایا جائے۔
بقول طلعت مسعود: ’اب امریکہ مسئلہ افغانستان کو اکیلا ہینڈل کرنے کی بجائے دنیا کے دوسرے اہم ملکوں کو بھی اس کے حل میں شامل کر رہا ہے تاکہ ذمہ داری صرف اس پر نہ آئے۔‘
مسودے میں ہے کیا؟
امریکہ نے دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے لیے اہم نکات پر مشتمل جو مسودہ تیار کیا ہے، اس کے تین حصے ہیں۔
مسودے کے پہلے حصے میں افغانستان کے مستقبل کے لیے 14 رہنما اصول بتائے گئے ہیں، جن میں افغانستان کا مذہب اسلام، عدلیہ، ملک میں امن کے قیام، عام افغان باشندوں کی جان و مال اور آبرو کا تحفظ، مختلف نسلوں کے علاوہ خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ، مستقبل کا افغان آئین اور بین الاقوامی معاہدوں کی پاس داری وغیرہ کا ذکر ہے۔
مسودے کے دوسرے حصے میں افغانستان میں عبوری حکومت اور سیاسی روڈ میپ کا ذکر ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن معاہدے کے روز سے کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے ایک عبوری امن حکومت کا قیام عمل میں آئے گا جس میں دونوں فریقین کو نمائندگی حاصل ہو گی۔ یہ عبوری انتظامیہ نیا آئین بننے کے بعد اقتدار مستقل حکومت کو منتقل ہونے تک قائم رہے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبوری حکومت کی ساخت سے متعلق دو تجاویز دی گئی ہیں۔ پہلی تجویز میں انتظامیہ صدر، نائب صدور، وزرا اور دوسرے محکموں اور اداروں کے سربراہان پر مشتمل ہو گی جبکہ دوسری تجویز میں صدر اور نائب صدور کے علاوہ انتظامیہ میں وزیر اعظم اور نائب وزرا اعظم کا ذکر بھی ہے۔
اسی حصے میں ملک کی سکیورٹی، خارجہ امور اور امور مملکت چلانے کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل کا ذکر بھی ہے۔
مسودے کے مطابق عبوری حکومت بننے کے 30 دن کے اندر دونوں فریقین سے دس، دس ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو ملک کے نئے آئین کا مسودہ تیار کرکے منظوری کے لیے لویہ جرگہ کو پیش کرے گی۔
آئین کی منظوری کے بعد ملک میں ایک بین الاقوامی انتظامیہ کے تحت انتخابات منعقد ہوں گے، جس کے بعد اقتدار عوام کے اصلی نمائندوں کو منتقل ہو جائے گا۔
مسودے کے تیسرے اور آخری حصے میں جنگ بندی کا ذکر ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ معاہدے کے فوراً بعد دونوں فریقین کی جانب سے مکمل جنگ بندی ہوگی اور طالبان افغانستان کے اندر اور دوسرے ملکوں میں قائم اپنا تمام جنگی انفراسٹرکچر ختم کرنے کے پابند ہوں گے، کوئی حریف بھی ملیشیا نہیں بنا سکے گا اور نہ ہی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی صورت میں جواب دے گا بلکہ جنگ بندی کمیشن سے رجوع کرے گا۔
جنگ بندی کی نگرانی اور اسے یقینی بنانے کے لیے دونوں فریقین سے چار چار نمائندوں اور ایک صدر کے نمائندے پر مشتمل جنگ بندی کمیشن بنایا جائے گا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف سے زلمے خلیل زاد اور کمانڈر ریزولیٹ سپورٹ مشن افغانستان جنرل آسٹن اسکاٹ ملر نے اپنے حالیہ دورے کے دوران جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملاقات بھی کی۔
ملاقات میں باہمی دلچسپی، علاقائی سیکیورٹی اور جاری افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ زلمے خلیل زاد اور جنرل آسٹن اسکاٹ ملر نے امن عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔
امریکی سفارتخانے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں منصفانہ اور پائیدار کے حصول کے عمل میں تیزی لانے کی ضرورت پر زور دیا۔