طویل کووڈ: برطانیہ میں دس لاکھ سے زائد افراد میں اب بھی علامات

طویل کووڈ کی علامات میں دائمی تھکاوٹ، سانس کی تنگی اور دماغی دھند کے ساتھ ساتھ گردوں، دل اور پھیپھڑوں کو شدید نقصان شامل ہوسکتا ہے۔

برطانیہ کے  دفتر برائے شماریات کا کہنا ہے کہ 11 لاکھ افراد نے کرونا کا شکار ہونے کے بعد چار ہفتوں سے زیادہ کے عرصے پر محیط  طویل کووڈ علامات کی اطلاع دی ہے۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات نے کہا ہے کہ ملک میں دس لاکھ سے زائد افراد طویل یا لانگ کووڈ کی علامات کا شکار ہیں۔

یہ مستقل اور غیر ثابت شدہ علامات کے پچھلے اندازوں میں ایک نمایاں اضافہ ہے اور برطانیہ بھر میں (کرونا) کورونا وائرس انفیکشن میں جنوری میں اضافے کے بعد کے اعداد و شمار ہیں۔

دفتر برائے شماریات کا کہنا ہے کہ 11 لاکھ افراد نے کرونا کا شکار ہونے کے بعد چار ہفتوں سے زیادہ کے عرصے پر محیط  طویل کووڈ علامات کی اطلاع دی ہے۔

طویل کووڈ کی علامات میں دائمی تھکاوٹ، سانس کی تنگی اور دماغی دھند کے ساتھ ساتھ گردوں، دل اور پھیپھڑوں کو شدید نقصان شامل ہوسکتا ہے۔

ادارے کو معلوم ہوا کہ یہ علامات چھ لاکھ 74 ہزار افراد کی روزانہ کی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہیں جبکہ تقریباً دو لاکھ افراد کا کہنا تھا کہ ان کی معمول کی سرگرمیاں انجام دینے کی صلاحیت محدود ہو گئی ہے۔

ان علامات کی اطلاع دینے والوں میں سے تقریباً سات لاکھ نے پچھلے تین ماہ کے دوران کووڈ انفیکشن ہونے کی اطلاع دی تھی لیکن 70 ہزار نے کہا کہ ان کے انفیکشن کو ایک سال سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے۔

یہ مسائل 35 سے 69 سال کی عمر کے افراد، خواتین اور زیادہ محروم علاقوں میں رہنے والوں میں زیادہ تھے۔ اس کے علاوہ متاثر ہونے کے زیادہ امکانات میں صحت اور سماجی دیکھ بھال میں کام کرنے والے اور پہلے سے بیمار رہنے والے لوگ بھی شامل ہیں حالانکہ ادارے نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس کی وجہ انفیکشن کا خطرہ ہے یا طویل کووڈ کا تجربہ کرنے کا احساس۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سروے کے اعداد و شمار بہت سے متاثرہ افراد میں طویل مدتی بیماری کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہیں، جبکہ حالیہ جائزوں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ طویل کووڈ کے ساتھ لوگوں کو کتنا نقصان ہوگا۔

ہسپتال کے مریضوں کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ دس میں سے سات افراد ہسپتال چھوڑنے کے مہینوں بعد بھی علامات کا شکار تھے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ کے شواہد کا جائزہ لینے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ خواتین کے متاثر ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

مطالعے کے 20،000 شرکا کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی جنہیں گذشتہ سال 26 اپریل اور 6 مارچ کے درمیانی عرصے میں کوویڈ 19 مثبت رہا تھا، 13.7 فیصد افراد کم از کم 12 ہفتوں تک مختلف علامات کا شکار رہے۔

یہ شرکا کے کنٹرول گروپ کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ تھا جنہیں کوویڈ 19 ہونے کا امکان نہیں تھا۔

مطالعے کے شرکا جنہوں نے وائرس کے لئے مثبت تجربہ کیا ، ان میں 14.7 فیصد خواتین نے 12 ہفتوں میں علامات کی اطلاع دی جبکہ مردوں کی یہ شرح 12.7 فیصد ہے۔ یہ 25 سے 34 سال کی عمر والوں میں بھی سب سے زیادہ تھا۔

ڈاکٹر ایلین میکسویل ، جنہوں نے این آئی ایچ آر جائزے کی قیادت کی، نے کہا کہ او این ایس کے اعداد و شمار دوسرے جائزوں کے مطابق ہیں۔

انہوں نے کہا  ’میرے لئے کلیدی نتائج 12 ہفتوں میں نہیں بلکہ ایک سال میں 70،000 ہیں، یہ بین الاقوامی سطح پر ایک نئی کھوج ہے اور اس سے منسلک نوعیت کے متنازعہ کراس سیکشنل سروے ہیں جو تخمینے کی وسیع رینج کی وضاحت کرنے میں ایک لمبا فاصلہ طے کرتے ہیں۔

او این ایس میں صحت اور لائف کے شعبے کے سربراہ بین ہمبرسٹون  نے کہا کہ ’دفتر برائے قومی شماریات کا اندازہ ہے کہ برطانیہ میں ایک ملین سے زیادہ افراد مارچ 2021 کے آغاز میں طویل کووڈ سے وابستہ علامات کی اطلاع دے رہے تھے، ان میں سے دو تہائی سے زیادہ افراد کم از کم 12 ہفتے پہلے تک کووڈ 19 کے شکار تھے۔

ایک اندازے کے مطابق چھ لاکھ 74 ہزار افراد نے بتایا کہ ان علامات نے ان کی روزمرہ کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ جن لوگوں کے کووڈ 19 کے نتائج مثبت آئے ہیں، ان میں عام آبادی کے مقابلے میں طویل علامات کا شکار ہونے کے تقریبا آٹھ گنا زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت