پاکستان 2030 تک 60 فیصد متبادل توانائی پر منتقل ہوسکتا ہے؟

کیا پاکستان حکومت کے پاس اس ٹارگٹ کے حصول کے لیے کوئی روڈ میپ ہے؟ یا پھر سالانہ بنیاد پر کون سے اقدامات اٹھائے جائیں گے، جس سے 2030 تک 60 فیصد متبادل بجلی پر منتقل کیا جاسکے؟ حکومتی دعوؤں پر ماہرین کے سوالات

پاکستان میں ونڈ پاور کے منصوبے 2006 سے شروع ہوئے (تصاویر: امر گرڑو)

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کہا ہے کہ سال 2030 میں پاکستان 60 فیصد ماحول دوست توانائی پر منتقل ہوجائے گا اور پاکستان میں 30 فیصد گاڑیاں بجلی سے چل رہی ہوں گی۔ 

واشنگٹن میں منعقدہ کلائمٹ لیڈر سمٹ میں آن لائن شریک ملک امین اسلم نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ کاربن سے صاف توانائی پر منتقلی میں اپنا وعدہ پورا کریں اور عالمی برادری ماحولیات کے لیے مختص 100 ارب ڈالر کی فراہمی کو یقینی بنائے، تاکہ ماحولیاتی چیلنجز کا عملی طور پر مقابلہ کیا جاسکے۔

اس سمٹ کا انعقاد 'عالمی یوم ارض' کے موقع پر امریکہ کی جانب سے کیا گیا تھا، جس میں 40 رہنماؤں نے آن لائن شرکت کی۔ اس موقع پر دنیا میں کاربن کے اخراج والے بڑے ممالک چین، بھارت اور روس نے کاربن کے اخراج میں کمی کے وعدے کیے۔

اجلاس کے میزبان امریکی صدر جو بائیڈن نے سب سے بڑا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ 'امریکہ کاربن کے اخراج کو 2005 کے مقابلے میں جلد ہی 50 سے 52 فیصد کم کردے گا۔'

دوسری جانب جاپان نے 2030 میں 26 فیصد اور کینیڈا نے 2030 تک 40 سے 50 فیصد کاربن اخراج کم کرنے کے وعدے کیے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے جائزہ لیا ہے کہ کیا پاکستان 2030 تک 60 فیصد ماحول دوست توانائی پر منتقل ہوسکتا ہے؟  

مختلف ماہرین کا خیال ہے کہ صرف نو سالوں میں 60 فیصد متبادل توانائی پر منتقل ہونے کے لیے جو وسائل اور اقدامات ہونے چاہییں وہ اس وقت تک تو نظر نہیں آتے، اس لیے پاکستان کے لیے اتنا بڑا ٹارگٹ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا: 'یہ دعویٰ صرف ایک جملہ ہی ہے، 60 فیصد متبادل توانائی پر منتقل ہونے کے لیے کتنی رقم چاہیے اور کیا اتنی رقم کا بندوبست ہوسکتا ہے؟ اس وقت متبادل بجلی کی کیا قیمت ہوگی؟ روایتی بجلی سے متبادل بجلی پر منتقلی اتنی بھی آسان نہیں ہے۔'

انہوں نے ملک امین اسلم کے دعوے پر سوال کیا کہ 'کیا پاکستان حکومت کے پاس اس ٹارگٹ کے حصول کے لیے کوئی روڈ میپ ہے؟ یا پھر سالانہ بنیاد پر کون سے اقدامات اٹھائے جائیں گے، جس سے 2030 تک 60 فیصد متبادل بجلی پر منتقل کیا جاسکے۔ کیا حکومت کے پاس کوئی پلان ہے کہ صعنت کو کتنی بجلی دی جائے گی اور دیگر شعبوں کو کتنی بجلی مہیا کی جائے گی؟'

قیصر بنگالی نے مزید کہا: 'اس کے علاوہ بجلی کی بچت بھی کرنا لازم ہے۔ جب تک فی کس بجلی کے استعمال کو کم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ جیسے امریکہ میں 1970 کی دہائی میں جب تیل کی قیمت بڑھ گئی تو وہاں کی حکومت نے گاڑیوں کی رفتار 65 میل فی گھنٹہ کردی تھی، کیوں کہ اس سے کم رفتار پر تیل کا استعمال بڑھ جاتا ہے، تو کیا پاکستانی حکومت کے پاس بجلی کی بچت کا کوئی ٹھوس پلان ہے؟'

وفاقی حکومت نے متبادل توانائی پالیسی 2019 کے تحت 2030 تک 30 فیصد متبادل بجلی اور 30 فیصد ہائیڈرو  پاور پر منتقل ہونے کا اعلان کیا تھا اور اس مقصد کے لیے 40 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی حکومت کے آلٹرنیٹ انرجی ڈولپمنٹ بورڈ کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر سریش کمار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت کا 2030 تک 60 فیصد صاف بجلی لگانا ممکن نہیں ہے۔ 

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی سٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2020 کا حوالہ دیتے ہوئے سریش کمار نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں کے الیکٹرک کی 2،984 میگاواٹ پیداوار کے ساتھ کل 38،719 میگا واٹ بجلی کی پیداوار ہے۔ اس میں ونڈ پاور 1248 میگا واٹ، سمشی توانائی 430 اور بایوماس سے 369 میگاواٹ کی پیداوار ہے۔

سریش کمار نے کہا: 'پاکستان میں ونڈ پاور کے منصوبے 2006 سے شروع ہوئے اور 2012 میں بجلی کی پیداوار شروع کی اور 2006 سے اب تک 15 سالوں میں صرف 1248 میگا واٹ کی پیداوار ہوسکی ہے، تو نو سالوں میں کل بجلی کا 30 فیصد متبادل پر منتقل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا: 'پاکستان واحد ملک ہے، جہاں صعنت کی بجائے 60 فیصد گھریلو صارفین ہیں، جو مہنگی بجلی کے بعد خود سے سولر پر منتقل ہورہے ہیں، تو کیا 2030 میں گھریلو صارفین کی بجلی کی کھپت آج والی رہے گی؟ اس کے علاوہ جدید دور میں بجلی کی بچت کرنے والے بلب، اے سی اور دیگر مصنوعات بھی مارکیٹ میں موجود ہیں تو ایسی صورت میں 2030 میں بجلی کی کھپت کتنی ہوگی، اس کا بھی حکومت کو اندازہ لگانا ہوگا۔'

سریش کمار نے مزید کہا کہ 'پاکستان میں ٹرانسمیشن لائن کا نہ ہونا بھی ایک اور وجہ ہے کہ یہ ٹارگٹ پورا نہیں ہوسکے گا۔ بلوچستان میں ونڈ کوریڈور ہے، اگر وہاں ونڈ بجلی بنتی ہے تو اس بجلی کو کیسے لایا جائے گا۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات