کراچی کا حلقہ 249 جہاں سب ہی الیکشن ملتوی کرنا چاہتے تھے

29 اپریل کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے والی تین مرکزی سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو اس ضمنی الیکشن کو ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی تھی، تاہم کرونا کے باوجود ان کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

سندھ حکومت بھی این اے 249 میں ہونے والے الیکشن ملتوی کرانے کے حق میں ہے اور الیکشن کمیشن کو بھی خط لکھ چکی ہے (تصویر: پی پی پی میڈیا سیل)

پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے باوجود کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 249 پر جمعرات (29 اپریل) کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہے ہیں۔

کراچی کے اس حلقے میں 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار فیصل واوڈا کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے نائب صدر شہباز شریف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 

کچھ عرصہ قبل فیصل واوڈا سینیٹر منتخب ہونے سے قبل قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفیٰ ہو گئے تھے، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس حلقے پر 29 اپریل کو ضمنی انتخاب کرانے کا اعلان کیا تھا۔ 

ملک میں کرونا وائرس کی بگڑتی صورت حال کے بعد حلقہ این اے 249 پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے والی تین مرکزی سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو اس ضمنی الیکشن کو ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

تاہم ان درخواستوں پر 22 اپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے حلقہ این اے 249 کے ضمنی انتخاب کو مقررہ وقت پر کرانے کا اعلان کیا تھا۔ 

سندھ حکومت بھی این اے 249 میں ہونے والے الیکشن ملتوی کرانے کے حق میں ہے اور الیکشن کمیشن کو بھی خط لکھ چکی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے بتایا کہ ’ہم نے الیکشن کمیشن کو دو بار خط لکھے مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ کرونا کی خراب صورتحال کی وجہ سے ہر حال میں الیکشن ملتوی ہونے چاہییں۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اس حوالے سے کہا: ’کرونا وائرس کی بگڑتی صورت حال کے بعد الیکشن بالکل ملتوی ہونے چاہییں۔ ہم نے 25 دن پہلے الیکشن کمیشن کو کہا تھا کہ الیکشن ملتوی کریں مگر انہوں نے نہیں کیے۔ تو اب الیکشن کمیشن جوابدہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’مگر کسی بھی الیکشن پر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے انتخابی مہم پر رقم اور محنت لگتی ہے، وہ لگ گئی اور سرکاری طور پر افرادی قوت اور دیگر اخراجات بھی ہوگئے ہیں تو ایسی صورت میں آخری وقت میں الیکشن ملتوی کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں۔ اس لیے اب الیکشن ہونے چاہییں۔‘

 دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے منگل کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ پارٹیاں جن کو یقین ہے کہ وہ نہیں جیت سکتیں، وہ الیکشن ملتوی کروانے کے لیے رمضان اور کرونا کے بہانے کررہی ہیں، مگر الیکشن کمیشن نے این اے 249 میں انتخاب سے بھاگنے کے بہانے مسترد کر دیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب کرونا وائرس کی صورت حال کے مدنظر پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے گذشتہ ہفتے این اے 249 میں اپنے امیدوار کے حق میں مہم چلانے کے لیے دورہ کراچی اور جلسے کو یہ کہہ کر ملتوی کر دیا تھا کہ پڑوسی ممالک سے وائرس کے آنے کے خطرات ہیں، لہذا وہ عوام کی بہتری، زندگی کے تحفظ اور صحت کی خاطر دورہ کراچی منسوخ کررہی ہیں۔

کراچی کے اس حلقے میں ضمنی الیکشن کے لیے تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق حلقے میں گذشتہ شب سے تمام جماعتوں نے اپنی انتخابی سرگرمیاں بند کر دی ہیں۔ آج حلقے میں بیلٹ پیپر کی ترسیل کی جا رہی ہے۔

بیلٹ پیپر پر کچھ دن قبل وفاقی حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار کے نام اور انتخابی نشان درج ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف سیاسی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں سمیت بیلٹ پیپر پر 30 امیدواروں کے نام اور نشان درج ہیں۔

الیکشن کمیشن کے ایک بیان کے مطابق قومی اسمبلی کے اس حلقے میں تین لاکھ 39 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز اور 276 پولنگ سٹیشنز ہیں، جن میں سے 185 کو انتہائی حساس اور 91 کو حساس قرار دیا گیا ہے۔

حساس پولنگ سٹیشنز پر چھ پولیس اہلکار جبکہ انتہائی حساس پولنگ سٹیشنز پر آٹھ اہلکار تعینات ہوں گے۔ اس کے علاوہ رینجزر بھی موجود ہوگی۔

الیکشن میں پیپلز پارٹی کے قادر مندوخیل، مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل، پی ایس پی کے مصطفیٰ کمال، پی ٹی آئی کے امجد اقبال آفریدی، ایم کیو ایم پاکستان کے حافظ محمد مرسلین، پاسبان پاکستان کے خالد صدیقی، پاکستان راہ حق پارٹی کے محمد عادل، پاکستان فلاح پارٹی کے محمد ولی اور 18 آزاد امیدواروں سمیت کل 30 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔

حلقے کا سب سے بڑا مسئلہ پانی 

قومی اسمبلی کے اس حلقے میں صفائی، نکاسی آب، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مسائل ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ 

اتحاد ٹاؤں کے رہائشی سماجی رہنما فخرالدین کھوسہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس حلقے میں پینے کے پانی کا شدید مسئلہ سالوں سے چلا آرہا ہے، کہیں لائن نہیں ہے اور اگر لائن ہے تو پانی نہیں آتا۔ سب سیاسی پارٹیاں الیکشن سے پہلے وعدے کرتی ہیں مگر الیکشن کے بعد بھول جاتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اس لیے حلقے کے لوگ ہر بار کسی نئے امیدوار کو آزمانے کے لیے اس امید پر ووٹ دیتے ہیں کہ شاید اس بار ان کے مسائل حل کروائیں گے۔ ہر الیکشن نئی امیدیں لے کر آتا ہے، اب دیکھیں کہ اس بار کون جیتے گا۔‘ 

اگر آپ اس حلقے میں چکر لگائیں تو ہر جگہ پر آپ کو پانی سے متعلق کچھ ہوتا نظر آئے گا۔ کسی سوزکی میں کوئی پانی کے پائپ لے جاتا ہوا نظر آئے گا تو کہیں پانی کی لائن کے لیے کھدائی ہو رہی ہوگی تو کہیں سے ٹینکر آتا نظر آتا ہے۔ 

الیکشن سے پہلے کئی ریسرچ کمپنیوں نے پانی اور دیگر مسائل پر کئی سروے بھی کروائے اور ان میں بھی پانی ہی اس حلقے کا بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست