بچے بیکٹیریا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یا اس کے بغیر؟

کیا ہمیں بچوں کو چھونے سے پہلے ہاتھ دھونے اور جراثیم کش جیل استعمال کرنے کی وکالت کرنی چاہیے؟ یا ہمیں اپنے ہاتھ دھونے سے گریز کرنا چاہیے؟

اس بات پر بہت بحث ملتی ہے کہ بچے اپنی آنتوں میں بیکٹیریا لے کر پیدا ہوتے ہیں یا پیدائش کے وقت جراثیم سے پاک ہوتے ہیں (اے ایف پی)

بچی دیکھنے میں بالکل ٹھیک لگتی ہے لیکن ماں کے نزدیک نہیں۔ ’وہ مسلسل روتی ہیں۔ اپنی ٹانگیں سینے کی طرف اوپر کھینچتی ہیں۔ ان کی زبان بھی سفید ہے۔ میرا خیال ہے ان کے منہ میں شاید چھالا ہو۔‘

میں نے گدے پر بچی کا معائنہ کیا۔ وہ گلابی نظر آتی ہے، اس نے گلابی کپڑے بھی پہن رکھے ہیں۔ اس کا نام روز (Rose) ہے۔ وہ تجرباتی طور پر اپنی ٹانگیں پھیلا رہی ہے۔ جب اس کی زبان دیکھنے کے لیے میں اس کے منہ میں لالی پاپ سٹک ڈالتی ہوں تو وہ پسند نہیں کرتی۔ یقیناً اس کی زبان کچھ زیادہ ہی سفید لگ رہی ہے لیکن اس کا پیٹ ٹھیک اور نرم ہے اور اس کا وزن بھی عمر کے لحاظ سے ٹھیک ہے۔   

کچھ بچے اس دنیا میں روتے ہوئے کیوں آتے ہیں اور پھر چھٹے ہفتے ان کے پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے جبکہ بعض کو ایسا نہیں ہوتا۔ بعض اس حالت میں کیوں پیدا ہوتے ہیں کہ ان کی زبان پر چھالا ہوتا ہے؟ کیا اس کا صحت بخش بیکٹیریا سے کوئی تعلق ہے؟ کیا بچوں کے پیٹ میں درد اس وجہ سے اٹھتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیا ہم ماؤں کو ہاتھ دھونے اور بچوں کو سنبھالنے کا صحیح طریقہ بتا کر زبان کے چھالے اور پیٹ کے درد سے نجات حاصل کر سکتے ہیں؟

میں نے ماں کے چہرے پر نظر ڈالی۔ ان کی صرف آنکھیں نمایاں جبکہ باقی چہرہ ماسک کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ میں دیکھ سکتی ہوں کہ وہ رونے والی ہیں لیکن ضبط کی کوشش کر رہی ہیں۔ ماسک کے پیچھے آنسوؤں سے نمٹنا ایک تکلیف دہ امر ہے۔ تیزی سے ٹشوز کا ڈبہ پیش کرتے ہوئے میں نے کہا ’پریشان مت ہوں۔ کیا آپ ایک لمحے کو اپنے چہرے سے ماسک ہٹائیں گی؟‘

بچوں میں اٹھنے والے پیٹ درد کو بیان کرنا اور ماؤں کے لیے بار بار اسے سنبھالنا خاصا مشکل کام ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک صحت مند بچہ ہے جو ایک ہفتے سے زائد عرصے تک ہفتے میں تین سے زیادہ دن، دن میں تین سے زیادہ گھنٹے روتا ہے۔ اندازے کے مطابق ہر پانچواں بچہ اس میں مبتلا ہوتا ہے جو چھٹے ہفتے میں جا کر شدت پکڑتا ہے اور بچے کی عمر کے چار مہینے پورے ہونے تک ختم ہو جاتا ہے۔

چار سے چھ ہفتے کے بچے کے پیٹ درد یا بکثرت رونے کی کئی وجوہات پیش کی گئی ہیں۔ بعض کے خیال میں یہ محض بچے کے عمومی رویے کا حصہ ہے۔ کچھ دیگر کی رائے میں اس کا سبب پیٹ کے اندرونی پٹھوں کی بکثرت حرکت ہے اور پھر یہ کہ بچے کو اس کی بہت اچھے سے خبر ہوتی ہے۔ لیکن بہت سے یقین رکھتے ہیں کہ اس کا تعلق مائیکروبائیوم کی تشکیل سے ہے۔ جس عمر میں یہ پیٹ درد شروع ہوتا ہے وہی وقت پیٹ میں ایک نئے بیکٹیریا کی تشکیل کا ہے۔

اس بات پر بہت بحث ملتی ہے کہ بچے اپنی آنتوں میں بیکٹیریا لے کر پیدا ہوتے ہیں یا پیدائش کے وقت جراثیم سے پاک ہوتے ہیں۔ بہت سے محققین نومولود بچوں پر کام کر رہے ہیں لیکن یہ بات حتمی طور پر معلوم کرنا بہت مشکل ہے کہ ملنے والے بیکٹیریا بچے میں اس کی پیدائش سے پہلے موجود تھے یا محض پیدا ہونے کے بعد لگے ہیں۔

تازہ ترین شائع ہونے والی تحقیق (نیچر مائیکرو بیالوجی، مئی 2021) کے مطابق بچے جراثیم سے پاک پیدا ہوتے ہیں۔ اس جائزے میں 20 الٹے پیدا ہونے والے بچوں (ایسے بچے جو سر کے بجائے دھڑ کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں) کی نشاندہی کی گئی جو سب کے سب  باقاعدہ آپریشن سے پیدا ہوئے تھے۔ محققین نے عمل جراحی کے ذریعے چیرا لگا کر بچوں کے مقعد سے اس وقت نمونے حاصل کیے جب وہ ابھی تک بچہ دانی میں تھے۔ صرف اس پر مطمئن نہ ہو کر ٹیم نے بچوں کی پیدائش کے بعد ان کا پہلا پاخانہ اکٹھا کیا اور پھر اس سے موازنہ کیا جو ان کی پیدائش سے پہلے لے چکے تھے تاکہ جراثیم کا اندازہ لگایا جا سکے۔ یہ تحقیق حیران کن حد تک نئی ہے اور اس کا سہرا اس ٹیم کو جاتا ہے جس نے اس نظریے کے حق میں بہت سا مضبوط مواد فراہم کیا کہ بچے جراثیم سے پاک پیدا ہوتے ہیں۔

بچے پہلی بار ماں کے رحم میں اندرونی جھلی پھٹنے کے بعد بیکٹیریا کو اکھٹا کرنے لگتے ہیں۔ وہ اندام نہانی سے آتے ہوئے کچھ اور بیکٹیریا لگا لیتے ہیں، مزید بیکٹیریا انہیں تھامنے والے ہیلتھ کیئر ورکر اور پھر ماں کے ہاتھوں میں پہنچتے پہنچتے ارد گرد کے ماحول سے لگ جاتے ہیں۔

آپریشن سے پیدا ہونے والے بچے اندام نہانی کے بیکٹیریا سے محروم رہتے ہیں۔ یہ ایک متنازع مسئلہ ہے اور بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس وجہ سے بچے کو مستقبل میں صحت کے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ تولیے کا ایک چھوٹا ٹکڑا ماں کی اندام نہانی میں پھیرنے کے بعد بچے کے چہرے پر ملنا چاہیے۔  

بہت سے جائزوں کے مواد پر مشتمل ایک حالیہ بڑی سطح کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیٹ کے آپریشن سے پیدا ہونے اور خاص طور پر بچپن میں سانس لینے کی تکلیف (اس فرق کا تناسب  1:2) اور موٹاپے (اس فرق کا تناسب 1:6) میں گہرا ربط ہے۔

جو بات واضح نہیں وہ یہ ہے کہ کیا پیدائش کے وقت اندام نہانی کے بیکٹیریا سے محرومی ہی وہ بنیادی سبب ہے جس کے باعث معمولی فرق سے بچوں کو سانس اور موٹاپے کی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اندام نہانی سے پیدا ہونے والے بچے اندام نہانی کے بیکٹیریا کی اچھی خاصی مقدار حاصل کرتے ہیں لیکن کیا یہ وہی بیکٹیریا ہیں جو بچے چاہتے اور انہیں ان کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیا وہ موجود رہتے ہیں؟

مختصر جواب ہے نہیں۔ اندام نہانی کے بیکٹیریا نوجوان عورتوں کی اندام نہانی کو صحت مند رکھنے، ایک گروہ یا جھرمٹ کی شکل میں رہتے ہوئے ضرر رساں بیکٹیریا کو دور رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں لیکن نوزائیدہ بچے کے لیے ان کا فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے چاہے وہ بچہ مونث ہی کیوں نہ ہو۔

Mother-to-Infant Microbial Transmission     نامی ایک جائزہ میں پیدائش سے چار ماہ تک ماں اور بچوں کی   25 جوڑیوں پر تحقیق کی گئی جس سے پتہ چلتا ہے کہ ’پیدائش کے وقت مسلسل جراثیم کی کثیر مقدار میں آمد ہوتی ہے‘ بالخصوص اندام نہانی کے بیکٹیریا جو زندگی کے چند ابتدائی دنوں میں تیز رفتار تبدیلیوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ البتہ اس جائزے سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ پہلے دن بچے کے پاخانہ میں اندام نہانی کے جراثیم کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو پانچویں دن تک ختم ہو چکی ہوتی ہے۔

اگر بچے کے جسم میں موجود پہلا بیکٹیریا ماں کی اندام نہانی سے نہیں آتا تو وہ پھر کہاں سے آتا ہے؟ اندام نہانی سے پیدا ہونے والے بچوں میں ابتدائی بیکٹیریا میں سے ایک ماں کے پیٹ کا بیکٹیریا ہے جو ماں کے ستر کے مقام سے (شرم گاہ) سے آتا ہے۔

لیکن سرجری کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے پر ممکن ہے پہلا بیکٹیریا سرجری والے لباس سے لگے۔ اس سلسلے میں آپریشن تھیٹر کی دیواروں، لائٹ شیڈ، تازہ ہوا کے لیے لگائی گئی کھڑکی سے نمونے اکھٹا کیے گئے اور  ڈی این اے کے ترتیب وار جائزے سے پتہ چلا ہے کہ دو تہائی سے زائد ڈی این اے بیکٹیریا میں سے زیادہ تر تعداد انسانی جلد پر پائے جانے والے بیکٹیریا کی تھی۔

بچے کو پہلا بیکٹیریا آپریشن تھیٹر سے لگنے میں کچھ طبی اور غیر انسانی پہلو شامل ہیں۔ ہم اس بیکٹیریا کے حصول میں بچے کی مدد کرنا چاہتے ہیں جس کی اسے ضرورت ہو۔ لیکن اسے کون سے بیکٹیریا کی ضرورت ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ انسانی جسم کے مختلف حصوں میں مختلف مائیکروبائیوم  ہوتے ہیں۔ جلد، آنت اور منہ ان چند اہم ترین جسمانی اعضاء میں سے ہیں جنہیں الگ خصوصیات کے حامل بیکٹیریا  چاہئیں۔ چھوٹے بچے کو ان سب کی ضرورت ہوتی ہے، بالخصوص آنت والے بیکٹیریا کی تاکہ وہ خوارک ہضم کرنے میں اس کی مدد کرے۔ 

ماں سے بچے تک کے جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ بچہ مادرانہ اعضائے مخصوصہ سے باہر نکلتے ہوئے اندام نہانی کے نہیں بلکہ ماں سے آنت کے مائیکروبائیوم لیتا اور اپنے پاس رکھتا ہے اور پیدا ہونے کے بعد وہ ماں کی قربت سے ماں کے پیٹ والے مائیکروبائیوم ہی حاصل کرتا ہے۔ جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف ماں بچے کی جوڑی بہت سارے ایک جیسے بیکٹیریا کے گروپ رکھتے لیکن یہ ہوبہو ایک جیسے بھی ہوتے ہیں۔

اگرچہ پیدائش کے پہلے چند روز ہر بچے کے مائیکروبائیوم دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں (ذکر کرتے چلیں کہ حادثاتی طور پر بغیر ترتیب ہر طرح کے بیکٹیریا کی اقسام آپس میں ٹکراتی ہیں) لیکن زندگی کے پہلے ہفتے میں ہی ان کی متغیر حالت کم ہونے لگتی ہے۔ بچہ مائیکروبائیوم کا ایک چھوٹا سا گروپ رکھنے لگتا ہے اور ہر بچے کے مائیکرو بائیوم دوسرے بچوں کے مائیکرو بائیوم جیسے لگنے لگتے ہیں۔

نئے پیدا ہونے والے بچوں میں مخصوص رجحان خاص طور پر Bifidobacterium  پایا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا کی بنیادی ترین اقسام ہیں جو بچے کو دودھ ہضم کرنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ دیگر میں Bacteroides vulgatus شامل ہیں۔ تین چار روز میں خوراک سے آکسیجن حاصل کرنے والے بیکٹیریا  بھی بڑھنے لگتے ہیں۔ یہ ابتدائی بیکٹیریا ہیں اور بچے کی آنت کو aerobic  سے anaerobic میں بدلنے کے لیے ایسا سازگار ماحول تیار کرتے ہیں جو بڑی عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ بچہ بہت سارے مائیکروبائیوم اپنی ماں سے لیتا ہے لیکن وہ بڑی احتیاط سے ان کا انتخاب کرتا ہے۔ آگے چل کر ان بیکٹیریا کی شکل ویسی نہیں رہتی، کم متنوع  ہونے کی وجہ سے ان میںanaerobes  کی تعداد کم اور دودھ ہضم کرنے والے بیکٹیریا کی زیادہ ہوجاتی ہے۔

لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ ماں کے مائیکروبائیوم غیر مادرانہ ذرائع سے حاصل کردہ جراثیم کی نسبت زیادہ دیر تک مضبوطی کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ بچے کی آنت میں موجود پچاس فیصد سے زائد مائیکروبائیوم ان قسموں سے تعلق رکھتے ہیں جو ماں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ ماں کے مائیکروبائیوم کیسے اتنا لمبا عرصہ زندہ رہتے ہیں۔ شاید وہ کسی طرح پورے خاندان کی ضرورت کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔

بچے کا مائیکروبائیوم صرف ماں سے ہی متاثر نہیں ہوتا۔ کوئی بھی شخص جو بچے کا ہر وقت خیال رکھنے کے لیے اس سے جڑا ہے وہ بچے میں مائیکروبائیوم پیدا کر سکتا ہے۔ بچے کا باپ، بھائی، بہنیں، رشتہ دار، ماحول یہاں تک کہ پالتو جانور تک سبھی اپنا کردار ادا کر تے ہیں۔ یہ بہت جانی پہچانی بات ہے کہ پیدائش کا طریقہ، قبل از وقت پیدائش، اینٹی بائیوٹکس، بوتل یا ماں کی چھاتیوں سے دودھ پینے تک سب چیزیں بچے کے مائیکروبائیوم پر شدت سے اثر انداز ہوتی ہیں اور ان سب پر مفصل تحقیق جاری ہے۔

بچے کا مائیکروبائیوم تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی گہرے اندھیرے کمرے میں ہوں اور کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ اس میں کیا ہے۔ سائنسدان اندھیرے میں ہیں۔ پاخانے کے نمونے اور دیگر نمونوں کو استعمال کرتے ہوئے وہ یہ جاننے کی کوشش میں لگے ہیں کہ بچے کے مائیکروبائیوم میں کیا ہے۔ وہ بیکٹیریا تیار کرتے ہیں اور بیکٹیریا کے ڈی این اے کا سراغ لگانے لگتے ہیں۔ وہ ہر microbe میں اس کی پیمائش کرتے ہیں لیکن اصل میں وہ یہ تک نہیں جانتے کہ وہاں ہونا کیا چاہیے۔

یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں کہ ماں اور بچے پر ہونے والی تحقیق کے دوران بیکٹیریائی جینوم کا حاصل کردہ ایک چوتھائی حصہ شناخت نہیں کیا جا سکا اور یہ ان تیرہ ہزار microbial species   میں کسی سے تعلق نہیں رکھتے جن کا کم سے کم ایک بنیادی جینوم میسر ہو، ان میں زیادہ تر Streptococcus and Clostridium نوع سے ہیں۔ یہ تحقیق ایک تصویر، ایک خاکہ پیش کرتی ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگرچہ فی الحال توجہ کا مرکز بیکٹیریا ہے لیکن سائنس دان اس بات کا سراغ لگانے کی کوششیں بھی شروع کر چکے ہیں کہ یہاں viral and fungal species کی موجودگی کا کیا مقصد ہے۔

کیا بچے کی آنت میں موجود بیکٹیریا کی یہی ساخت پیٹ میں اٹھنے والے درد کا شافی جواب فراہم کرتی ہے؟ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ کچھ بچوں میں اچھے مائیکروبائیوم کے گروہ نہیں پائے جاتے جنہیں بعض اوقات dysbiosis کہا جاتا ہے یعنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار مائیکروبائیوم۔ ابتدائی تحقیقات نے نشان دہی کی تھی کہ جن بچوں کے پیٹ میں درد ہوتا ہے ان کے پاخانے میں سوزش کے نشانات ملتے ہیں (faecal calprotectin) جو اس وقت ختم ہو جاتے ہیں جب پیٹ درد ختم ہو جاتا ہے (اگرچہ یوں خط امتیاز کھینچنا کافی مشکل ہے کیونکہ ذریعہ خوراک بھی faecal calprotectin  کی کمی بیشی کا باعث بن سکتی ہے)۔ دیگر کا خیال ہے کے پیٹ درد کی شکایت ان بچوں میں ہوتی ہے جو دودھ ہضم کرنے کے لیے درکار Bifideobacteria  ہی پورے نہیں رکھتے یا اس کے برعکس جن میں بہت زیادہ Acinetobacter  نامی بیکٹیریا پایا جاتا ہے۔

کرونا اور حالیہ فاصلاتی مہم کے بارے میں کیا خیال ہے جس میں ہاتھ دھونے کے لازمی حکومتی احکامات تک شامل ہیں۔ کیا یہ dysbiosis  کا سبب بنا ہے؟ یہ جاننے میں ابھی وقت لگے گا۔ مائیکرو بائیوم کی دنیا میں بہت زیادہ قیاس آرائی جاری ہے کہ کیسے کرونا کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں نے انسانی مائیکروبائیوم کے تنوع میں کمی پیدا کی ہے جو صنعتی ممالک میں پہلے ہی زوال کا شکار تھی۔ کرونا کے باعث نافذ کی گئی فاصلاتی مہم ہمارے مائیکروبائیوم کو متاثر کر سکتی ہے۔

ہم سب پر اب یہ واضح ہونا چاہیے کہ بچے کی آنتوں کے بیکٹیریا ماں اور خاندان کے آنتوں سے آتے ہیں اور بچے کی خوش قسمتی سے ایسا اس لیے ہے کہ ہاتھ دھونے کی ہماری سرگرمی ناقص ہے۔ ہمارا مائیکروبائیوم ہمارے وجود کا لازمی حصہ ہے سو دراصل ہم کبھی بھی اپنا دھڑ، اپنے ہاتھ حقیقت میں چراثیم سے پاک رکھ ہی نہیں سکتے یا مائیکروبائیوم کو مستقل طور پر خود سے الگ نہیں رکھ سکتے۔ آنتوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا  ہمارے پاجاموں، زیر جاموں، بستر کی چادروں اور غسل خانوں میں موجود ہوتے ہیں، وہ ہمارے ماحول کا حصہ ہیں اور یہاں تک کہ ہمارے موبائلوں سے (ہماری روزمرہ زندگی کی گندگی سے بھری ہوئی خوشنما چیزیں) لگ جائیں گے اور وہاں سے ہمارے بچوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ماں بچے کی جوڑیوں میں ہونے والی تحقیق میں بچے کے مقعد سے حاصل کیے گئے نمونے اسے کسی بھی شبہ سے بالاتر بناتے ہیں۔

تو کیا ہمیں نوزائیدہ بچوں کو چھوتے ہوئے ہاتھ دھونے اور جراثیم کش مواد استعمال کرنے کی وکالت کرنی چاہیے؟ یا ہمیں ہاتھ دھونے سے گریز کرنا چاہیے؟ یقیناً ہم انہیں بیمار کرنے والے جراثیم سے بچاتے ہیں تاہم انہیں بیماری سے محفوظ رکھنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ عین اسی وقت ہم بچے میں مضبوط مائیکروبائیوم کی بنیاد بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ بچے کے دوستانہ بیکٹیریا منہ کے چھالے جیسے دیگر چند مرض آور جراثیم کو خود بخود اس کے جسم میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں۔

بالآخر روز، اس کی ماں اور اس کی ماں کی پریشانی کا باعث بننے والے اس معاملے میں ہم کس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ کیوں کہ ہمیں بچے کی تکلیف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی والدین کی تکلیف، غیر یقینی صورت حال اور بے چینی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ روز کی ماں نے اپنا ناک صاف کیا اور آہستہ سے اپنا ماسک دوبارہ اپنے کانوں پر چڑھا لیا۔ انہوں نے بچی کو کپڑے پہنائے جو اِس وقت رو رہی ہے۔

کیا مجھے انہیں مشورہ دینا چاہیے کہ گھر جاکر ہاتھ دھونے سے گریز کریں؟ کیا مجھے انہیں سمجھانا چاہیے کہ اپنی اندام نہانی تولیے سے صاف کریں اور بچے کے چہرے پر نرمی سے پھیریں؟ کیا انہیں بچے کی بوتل یا بوتل کے نپلز کو چاٹتے ہوئے صاف کرنا اور سیدھا روز کے منہ میں ڈال دینا چاہیے؟ یا انہیں ان سب چیزوں سے گریز کرنا چاہیے؟  

مائیکروبائیوم پر کی گئی تمام تر خام تحقیق چھاننے کے بعد یہ بہت اچھا رہے گا کہ پیش کرنے کو آپ کے پاس چند کارآمد نصیحتیں ہوں۔ مگر شاید یہ توقع قبل از وقت ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چھوٹے بچوں کے مائیکروبائیوم پر تحقیق بھی ابھی نوزائیدہ ہے۔ سائنس ابھی تک طبی امراض سے منسلک نہیں ہو سکی اور بیش تر معلومات اتنی پختہ نہیں کہ انہیں عملی مقاصد کے لیے ڈاکٹروں کے حوالے کر دیا جائے۔ بااعتماد طریقے سے زیادہ سے زیادہ میں روز کی ماں سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ جسم کا جسم سے مس ہونا روز کے لیے انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ مفید بیکٹیریا حاصل کر سکے۔ میں بتا سکتی ہوں کہ وہ ابھی تک اپنے مائیکروبائیوم کی افزائش کر رہی ہے اس وجہ سے پیٹ میں کچھ دیر درد ہو سکتا ہے لیکن عموماً خود ہی ٹھیک ہو جایا کرے گی۔

 ایسے خاندانوں میں بھی جو صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں بچہ رینگنے، کھلونے منہ میں ڈالنے اور پتھر چاٹنا شروع کرنے کے بعد اپنا مائیکروبائیوم خود ہی ٹھیک کرلیتا ہے۔

ڈاکٹر بیرینیس لینگڈن ایک جنرل فزیشن ہیں اور انہوں نے لرننگ مائیکروبیالوجی تھرو کلینکل کنسلٹیشن نامی کتاب لکھی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت