’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر:کوئی سادہ اکثریت کی پوزیشن میں نہیں‘

اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے متفق ہو کر حکومت بنانے کا فیصلہ کر لیا تو پہلی مرتبہ وفاق میں برسر اقتدار جماعت کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہونے کی روایت ٹوٹ جائے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کے لیے حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد میں نشستیں حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا(فوٹو: پی ٹی آئی میڈیا سیل)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں دو روز باقی رہ گئے ہیں اور جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے، سیاسی سرگرمیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں۔

اگرچہ عمومی تاثر یہی ہے کہ جس جماعت کی حکومت وفاق میں ہو وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات با آسانی جیت کر حکومت بنا لیتی ہے تاہم اس مرتبہ پاکستان تحریک انصاف ایک موثر اور مربوط الیکشن مہم کے باوجود ابھی تک ان انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

چار نشستوں کے اضافے کے بعد اس مرتبہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں قانون ساز اسمبلی 53 نشستوں پر مشتمل ہو گی، جن میں سے 45 نشستوں پر براہِ راست انتخابات ہوں گے۔ خواتین کے لیے 5، ٹیکنوکریٹ، علما مشائخ اور بیرونِ ملک کشمیریوں کے لیے ایک ایک مخصوص نشست پر متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت بالواسطہ انتخابات ہوتے ہیں۔ 45 براہ راست نشستوں میں سے 12 نشستیں پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کے لیے مختص ہیں جو 1947، سے 1989 کے درمیان مختلف اوقات میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوئے۔

2016 میں جب پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہوئے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے 49 میں سے 39 نشستیں جیت کر حکومت بنائی تھی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر کوئی بڑا اپ سیٹ نہ ہو جائے تو اس مرتبہ بھی وفاق میں برسر اقتدار جماعت کی پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں حکومت بنانے کے روایت نہیں ٹوٹے گی تاہم پی ٹی آئی کے لیے حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد میں نشستیں حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

حیرت انگیز طورپر پی ٹی آئی وفاق میں حکومت ہونے اور وزیر اعظم عمران خان کی انتخابی مہم میں شمولیت کے باوجود جلسوں میں اتنے لوگوں کو اکٹھا نہیں کر سکی جتنے لوگ مریم نواز، بلاول بھٹو اور آصفہ زرداری کے جلسوں میں شریک ہوئے۔

گلگت بلتستان کی طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آزاد امیدواروں کی جیت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف ایک آزاد امیدوار مقابلے کی پوزیشن میں ہے۔

انتخابی اتحاد سے کترانے کے نتائج بھی پی ٹی آئی کے لیے منفی ثابت ہوئے اگرچہ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس کا حکومت سازی کے عمل میں اتحاد طے ہے مگر انتخابات کے مرحلے میں تینوں جماعتیں ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑی ہیں۔ مسلم کانفرنس متعدد کوششوں کے باوجود پی ٹی آئی سے انتخابی اتحاد نہیں بنا سکی اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کا انتخابی اتحاد بھی چند روز میں ٹوٹ گیا تھا تاہم حکومت سازی کے عمل میں دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کی ہی حمایت کا رجحان رکھتی ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس لیے الیکشن کے بعد بننے والے اتحاد حکومت سازی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے متفق ہو کر حکومت بنانے کا فیصلہ کر لیا تو پہلی مرتبہ وفاق میں برسر اقتدار جماعت کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہونے کی روایت ٹوٹ جائے گی۔ 

مظفرآباد ڈویژن میں کس کا پلڑا بھاری ہے؟

مظفرآباد ڈویژن میں شامل تین اضلاع کی کل نو انتخابی نشستیں ہیں۔ ان میں سے ضلع نیلم کی دو، مظفرآباد کی پانچ اور ہٹیاں بالا کی دو نشستیں شامل ہیں۔ ان میں سے ہٹیاں بالا اور لیپہ ویلی کی دو نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے راجہ فاروق حیدر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

مقامی تجزیہ کاروں کے مطابق راجہ فاروق حیدر کو ہٹیاں بالا کی نشست پر پیپلز پارٹی اور لیپہ ویلی میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ ضلع نیلم کی ایک نشست پر بھی مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکرٹری شاہ غلام قادر اور پی ٹی آئی کے سردار گل خنداں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

مجموعی طور پر مظفرآباد کی نو نشستوں میں سے چار پر پیپلز پارٹی، چار پر پی ٹی آئی اور صرف ایک سیٹ پر مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن بہتر ہے۔

تجزیہ کار اور اینکر پرسن سید ثمر عباس کے مطابق مظفر آباد کی ایک نشست پر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے اور شاہ غلام قادر کو پہلے دو حلقوں سے ٹکٹ ملنے اور پھر ایک حلقے سے دستبردار ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے ووٹر کو یہ تاثر ملا کہ ان کی جماعت انتخابات سے قبل ہی شکست تسلیم کر چکی ہے۔

 پونچھ ڈویژن کی انتخابی صورت حال

پونچھ ڈویژن میں شامل چار اضلاع  کی  کل گیارہ نشستیں ہیں جن میں ضلع سدھنوتی کی دو، ضلع پونچھ کی پانچ، ضلع حویلی کی ایک اور ضلع باغ کی تین نشستیں شامل ہیں۔ راولاکوٹ میں مقیم صحافی عابد صدیق کے مطابق ان گیارہ نشستوں میں سے چار پر پیپلز پارٹی، دو پر مسلم کانفرنس اور دو پر مقامی جماعت جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کے امیدوار مستحکم پوزیشن میں ہیں۔ دو نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار مقابلہ کر رہے ہیں جبکہ ایک نشست پر آزاد امیدوار اور مسلم لیگ (ن) کے امیدورار کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

اسطرح مجموعی طور پر پونچھ ڈویژن میں پی ٹی آئی اور اس کی متوقع اتحادی جماعتیں گیارہ میں سے چھ نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

میرپور ڈویژن کی صورت حال

میرپور ڈویژن انتخابی نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑا ڈویژن ہے اس میں کوٹلی کی چھ، میرپور کی چار اور بھمبر ضلع کی تین نشستیں شامل ہیں۔ ضلع کوٹلی کی چھ نشستوں میں سے تین پر پیپلز پارٹی، ایک پر مسلم کانفرنس اور ایک نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار بہتر پوزیشن میں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضلع میرپور کی چار انتخابی نشستوں میں سے ایک پر پیپلز پارٹی، ایک پر مسلم لیگ (ن) جبکہ دو نشستوں پر پیپلز پارٹی مضبوط ہے۔ ضلع بھمبر کی تین نشستوں میں سے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ایک ایک نشست جیت سکتی ہیں۔ مجموعی طور پر میرپور ڈویژن سے پیپلز پارٹی چھ نشستوں پر سخت مقابلہ کر رہی ہے، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی تین نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔

مہاجرین حلقوں کے ممکنہ نتائج

مہاجرین کے بارہ انتخابی حلقے ہمیشہ کی طرح فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اگرچہ ماضی کی طرح یہاں حکمران جماعت یکطرفہ طور پر اکثریتی نشستیں حاصل نہیں کر پائے گی تاہم اندازہ یہی لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں مقیم مہاجرین کی 12 میں سے چھ نشستیں پی ٹی آئی، چار مسلم لیگ (ن) اور دو پیپلز پارٹی کے حصے میں آ سکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ