نئی متفقہ حکومت کے قیام کے بعد ہتھیار ڈال دیں گے: طالبان 

نئی حکومت کے تحت خواتین کو کام کرنے، سکول جانے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی لیکن انہیں حجاب یا ہیڈ سکارف پہننا ہو گا: سہیل شاہین

اقتدار کی اجارہ داری پر یقین نہیں رکھتے، افغانستان میں اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے والی حکومتیں کامیاب نہیں ہوئیں: سہیل شاہین (اے ایف پی/فائل)

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرنا چاہتے تاہم گروپ کا اصرار ہے کہ صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور مذاکرات کے ذریعے کابل میں نئی حکومت کی تشکیل تک افغانستان میں امن کا حصول ممکن نہیں ہے۔
خبر رساں ادارےاے پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے رکن اور گروپ کے ترجمان سہیل شاہین نے مستقبل کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب افغان تنازع میں شامل تمام فریقوں کے لیے قابل قبول مذاکرات کے ذریعے نئی حکومت قائم ہوگی اور اشرف غنی کی حکومت چلی جائے گی تو طالبان ہتھیار ڈال دیں گے۔
خیال رہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے دوران حالیہ ہفتوں میں طالبان نے تیزی سے افغانستان کے وسیع و عریض علاقے پر قبضہ کرلیا ہے جن میں سٹریٹجک اہمیت کے حامل بارڈر کراسنگ بھی شامل ہیں جب کہ متعدد صوبائی درالحکومتوں کو اس گروپ کے جنگجوؤں نے محاصرے میں لے رکھا ہے۔
رواں ہفتے امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے پینٹاگون میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ طالبان کے پاس ’سٹریٹجک رفتار‘ ہے اس کے علاؤہ انہوں نے افغانستان پر طالبان کے مکمل قبضے کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ اٹل نہیں ہے۔ ’مجھے نہیں لگتا اس کے حتمی انجام کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہے۔‘
تقریباً 20 سال قبل طالبان نے اقتدار میں آ کر ملک میں اسلامی قوانین سختی سے نافذ کردیے تھے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بہت سے لوگوں کو ان کی واپسی کا خدشہ ہے۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور بدامنی کے خوف کے باعث ہزاروں افراد افغانستان سے نکلنے کے لیے ویزوں کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔
امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا 95 فیصد سے زیادہ مکمل ہو چکا ہے  اور 31 اگست تک ممکنہ طور پر تمام غیر ملکی افواج جنگ زدہ ملک سے نکل جائیں گی۔
سہیل شاہین نے بتایا کہ ’ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار کی اجارہ داری پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ماضی میں افغانستان میں اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے والی حکومتیں کامیاب حکومتیں نہیں تھیں۔ لہٰذا ہم اسی فارمولے کو دہرانا نہیں چاہتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ طالبان اشرف غنی کی حکمرانی جاری رکھنے پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ گروپ ترجمان نے افغان صدر پر جنگ کی دھمکیاں دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ عیدالاضحیٰ کے مقدس دن انہوں نے اپنی تقریر میں طالبان کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا۔
سہیل شاہین نے صدر غنی کی 2019 میں انتخابی فتح پر بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کے الزامات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت جائز نہیں ہے اس لیے ان کو حکمرانی کا کوئی حق نہیں۔
دوسری جانب صدر اشرف غنی نے بارہا کہا ہے کہ وہ اس وقت تک عہدے پر رہیں گے جب تک کہ نئے انتخابات اگلی حکومت کا تعین نہ کر لیں۔
ان کے ناقدین، جن میں طالبان کے علاوہ دیگر لوگ بھی شامل ہیں، نے ان پر الزام لگایا ہے کہ وہ صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان الزامات کے بعد ان کی حکومت میں پھوٹ بھی پڑ گئی ہے۔
گذشتہ ہفتے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں بات چیت کو جاری رکھنے اور عام شہریوں اور بنیادی ڈھانچے کے تحفظ پر زور دیا گیا۔
سہیل شاہین نے مذاکرات کو ایک اچھا آغاز قرار دیا لیکن انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جنگ بندی اور ہتھیار ڈالنے کے بار بار مطالبے کیے جاتے ہیں جبکہ خود قتدار سے ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ مفاہمت نہیں چاہتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ہتھیار ڈال دیں۔ کسی بھی جنگ بندی سے پہلے ایک نئی حکومت سے متعلق معاہدہ ہونا ضروری ہے جو ہمارے لیے اور دوسرے افغانوں کے لیے قابل قبول ہو۔ پھر اس کے بعد جنگ نہیں ہوگی۔‘
سہیل شاہین نے کہا کہ اس نئی حکومت کے تحت خواتین کو کام کرنے، سکول جانے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی لیکن انہیں حجاب یا ہیڈ سکارف پہننا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو گھر سے نکلنے کے لیے کسی محرم مرد کی ضرورت نہیں ہو گی اور نئے زیر قبضہ اضلاع میں طالبان کمانڈروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہاں یونیورسٹیوں، سکولوں اور بازاروں میں پہلے کی طرح کام جاری رکھا جائے جس میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت بھی شامل ہے۔
تاہم طالبان کے زیر قبضہ اضلاع سے بار بار ایسی رپورٹس موصول ہوتی رہی ہیں کہ انہوں نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں حتیٰ کہ سکولوں میں آگ لگادی۔ ایک لرزہ خیز ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شمالی افغانستان میں طالبان نے گرفتار کیے گئے کمانڈوز کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
سہیل شاہین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ طالبان کمانڈروں نے جابرانہ اور سخت رویے کے خلاف قیادت کے احکامات کو نظرانداز کیا اور ان میں سے متعدد کو طالبان کے ایک فوجی ٹریبونل کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور انہیں سزا دی گئی ہے تاہم انہوں نے سزاؤں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ 
طالبان ترجمان نے کہا کہ ان کے گروپ کا کابل پر فوجی دباؤ ڈالنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور یہ کہ اب تک طالبان کا صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کا کوئی ارداہ نہیں ہے۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ وہ نئے فتح کیے گئے اضلاع سے ملنے والے اسلحہ اور عسکری ساز و سامان کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


انہوں نے کہا کہ جنگ کے میدان میں طالبان کی اکثر کامیابیاں لڑائی سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے حاصل ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’وہ اضلاع جو ہمارے قبضے میں آ چکے ہیں اور فوجی دستے جو ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں یہ سب کچھ لوگوں کے درمیان ثالثی اور بات چیت کے ذریعے ہوا تھا، وہ لڑائی کے ذریعے حاصل نہیں کیے گئے، لڑائی کے ذریعے ہمارے لیے صرف آٹھ ہفتوں میں 194 اضلاع حاصل کرنا مشکل ہوتا۔‘
طالبان نے افغانستان کے تقریباً 419 اضلاع میں سے نصف کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ابھی تک انہوں نے 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے کسی پر قبضہ نہیں کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا