شریف برادران: لڑائی سیاست یا وراثت پر؟

شہباز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بھائی کے بیانیے سے کچھ حاصل نہیں ہوا اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو ان کی جماعت کے لوگ ان سے منہ پھیر لیں گے۔

کراچی میں دسمبر 1999 میں عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز اور شہباز شریف شانہ بشانہ(اے ایف پی فائل)

سیاسی جماعتوں میں اندرونی توڑ پھوڑ کا عمل کوئی نئی بات نہیں۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی یہ عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس عمل میں سیاسی رفاقت اور وفاداری تبدیل ہوتی ہے بلکہ کئی مرتبہ بہن بھائی اور ماں بیٹی بھی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں جو سیاسی جماعت سب سے زیادہ تقسیم ہوئی وہ ملک کی خالق جماعت مسلم لیگ ہے۔ مسلم لیگ کا ایک کے بعد ایک دھڑا وجود میں آیا۔

مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف کے حالیہ بیان پر اب ایک نئی تقسیم کی پیش گوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔

شہباز شریف نے 2018 کے انتخابات میں اپنی جماعت کی ناکامی کا ذمہ دار پارٹی کی حکمت عملی کو ٹھہرایا ہے اور اس طرح اپنے بڑے بھائی کے بیانیے کی بظاہر نفی کر دی ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں بھائیوں کی سوچ میں اختلاف 2017 میں نواز شریف کی برطرفی کے بعد سے ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ 

 نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی کے بیان کے اگلے روز ہی اس تاثر کی نفی کی اور اپنے بیانیے کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ نواز شریف کے بقول جدوجہد انتخابی عمل میں کامیابی کے لیے نہیں ہوتی۔

شریف برادران کے بیانات کے بعد یہ بات مکمل طور پر عیاں ہوگئی ہے کہ اب دونوں کی سوچ کیا ہے۔

شہباز شریف دراصل پرانے بیانیے کے بجائے اب انتخابات کی طرف توجہ دینا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں یہ خدشہ ہے کہ اگر یہی روش جاری رہی تو پھر وہ کشمیر کی طرح پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن کی کرسی کھو دیں گے اور ان کی جگہ کوئی اور جماعت (غالب امکان کہ پیپلز پارٹی) لے لے گی۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی قومی مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔ شہباز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بھائی کے بیانیہ سے کچھ حاصل نہیں ہوا اور یہ سلسلہ یوں چلتا رہا تو ان کی جماعت کے لوگ ان سے منہ پھیر لیں گے۔

یہ کہنا کہ شریف برادران الگ نہیں ہو سکتے اس نکتہ پر دلائل ہوسکتے ہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سیاست میں کوئی بات انہونی نہیں ہوتی۔

 بےنظیر بھٹو ماں کے سامنے اور مرتضی بھٹو بہن کے سامنے کھڑے ہوگئے تھے۔ لاہور کے الحمرا ہال میں اس وقت بے نظیر بھٹو نے ایک قرارداد کے ذریعے اپنی والدہ نصرت بھٹو کو پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کے عہدے ہٹا دیا اور وزیر اعظم ہوتے ہوئے پارٹی کی شریک چیئرپرسن سے چیئرپرسن بن گئیں۔ خود بےنظیر بھٹو کے بھائی مرتضی بھٹو سیاسی طور پر اپنی بہن کے مدمقابل آگئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ نے بہن بھائی کی اس سیاسی لڑائی میں اپنے بیٹے کا ساتھ دیا اور بیٹے کی انتخابی مہم چلائی۔ مرتضی بھٹو نے پیپلزپارٹی ش کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی جس کو آج ان کی بیوہ دیکھ رہی ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز ایوب خان کے دور میں کیا۔ وہ اسی دور میں وزیر خارجہ اور پھر ایوب خان کی سرکاری مسلم لیگ کے سیکرٹری بنے لیکن اس سب کے باوجود ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی۔

اسی طرح نواز شریف نے سابق فوجی صدر ضیا الحق کے دور میں پہلے وزیر خزانہ پنجاب اور پھر وزیر اعلیٰ پنجاب کا منصب سنبھالا لیکن اب وہ ضیا الحق کا تذکرہ تک نہیں کرتے۔

چوہدری برادران اور بھٹو خاندان میں سیاس اختلاف سے  زیادہ ذاتی عناد تھا لیکن پھر بھٹو کی حکومت میں چوہدری پرویز الہی نائب وزیر اعظم بنے جس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔

چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کا الزام پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیم پر لگایا گیا اور چوہدری ظہور الٰہی نے وہ قلم لینے کی خواہش کی ظاہر کی جس سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر دستخط ہوئے۔

سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار کھوسہ مسلم لیگ ن میں تھے اور ان کے بیٹے نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف میں ہیں تو ان کے بھائی مخالف جماعت پیپلز پارٹی میں تھے۔

اسی طرح  اسد عمر تحریک انصاف کے اور ان کے بھائی زبیر عمر مسلم لیگ ن کے اہم سینیئر رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔

ویسے بھی بادشاہت میں بھائیوں کی بھائیوں کے ساتھ لڑائی کے قصے سب کو معلوم ہیں۔ سب سے زیادہ نیک بادشاہ اورنگزیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’اس بادشاہ نے نہ کوئی نماز چھوڑی اور نہ ہی کوئی بھائی۔‘

ویسے بھی وراثت یا جائیداد پر ہی جھگڑے ہوتے اور پاکستان میں سیاسی جماعتیں بھی ایک وراثت سمجھی جاتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ