دوسرے گروہوں کو حکومت میں شامل کرنا طالبان کی مجبوری: تجزیہ کار

افغانستان کے حوالے سے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آئندہ حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے اور اس میں  طالبان کے علاوہ دوسرے کون کون سے گروہوں کو نمائندگی مل سکے گی؟ 

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے کنٹرول کو چار دن سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن مستقبل کی حکومت کے خدوخال ابھی تک واضح نہیں ہو پا رہے ہیں۔ 

تحریک طالبان افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل پر قبضے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ مستقبل کی حکومت اسلامی شریعت کے اصولوں کے مطابق تشکیل دی جائے گی اور وہ ملک کے تمام لسانی، مذہبی اور سیاسی گروہوں پر مشتمل یعنی All Inclusive ہوگی۔ 

افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق تحریک طالبان افغانستان نے حکومت کی تشکیل کی غرض سے مختلف گروہوں سے مذاکرات شروع کر دیے ہیں، جب کہ دوحہ میں اسلامی امارات افغانستان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر بھی اسی مقصد کے لیے افغان دارالحکومت کابل میں موجود ہیں۔

جمعرات کو جن طالبان رہنماؤں نے ملاقاتیں کی ہیں ان میں ملا عبدالغنی برادر اور انس حقانی کے علاوہ دوسرے سینئیر رہنما شامل ہیں، جنہوں نے سابق جہادی لیڈر انجنیئر گلبدین حکمت یار کے علاوہ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے مذاکرات کیے۔  اس کے علاوہ افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے بھی سابق  حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی۔

ایک ایسے وقت میں جبکہ افغانستان کے حوالے سے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آئندہ حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے؟ اور اس میں  طالبان کے علاوہ دوسرے کون کون سے گروہوں کو نمائندگی مل سکے گی؟ 

تمام گروہوں پر مشتمل حکومت 

افغانستان میں کم از کم چار بڑے لسانی اور مذہبی گروہ آباد ہیں، جن میں پشتون یا پختون ملک کی تقریباً آدھی آبادی کے ساتھ سب سے بڑی کمیونٹی ہیں، تاجک اور ازبک بالترتیب 27 اور نو فیصد ہیں جب کہ وسطی افغانستان میں آباد ہزارہ قوم کو کل آبادی کا 10 فیصد تسلیم کیا جاتا ہے۔ 

اسی طرح سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنے والے سات مجاہدین گروپ بھی افغانستان میں موجود ہیں، جو کسی حد تک سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ 

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان مستقبل کی افغان حکومت میں اختیارات کا ارتکاز اپنے ہاتھ میں رکھیں گے، تاہم دوسرے لسانی یا مذہبی گروہوں کو برائے نام نمائندگی ضرور دی جائے گی۔ 

سینئیر تجزیہ کار سلیم صافی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ طالبان سب سے پہلے 2001 میں اتحادی فوجوں کے ہاتھوں ختم ہونے والی اسلامی امارات افغانستان کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے  کہا: ’1996 میں قائم ہونے والی امارات اسلامی افغانستان میں طالبان بلا شرکت غیر شامل تھے، تاہم اس مرتبہ انہیں دوسری قوموں اور گروہوں کو بھی حکومت کا حصہ بنانا پڑے گا۔‘ 

بعض حلقوں کے مطابق طالبان اکیلے حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لیے ضروری ہو گا کہ وہ دوسرے لسانی و مذہبی گروں کو اپنے ساتھ رکھیں۔ 

افغان امور پر لکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کے خیال میں تحریک طالبان افغانستان میں وہ صلاحیت موجود نہیں ہے کہ وہ انتظام حکومت چلا سکیں اس لیے دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ 

صحافی مشتاق یوسفزئی کے خیال میں طالبان دوسرے گروہوں کو ضرور حکومت میں شامل کریں گے، لیکن یہ شمولیت بالکل برائے نام ہوگی۔ 

ان کا کہنا تھا: ’طالبان تمام اہم وزارتیں اور محکمے اپنے پاس رکھیں گے، جب کہ دوسرے گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کو غیر اہم ذمہ داریاں دی جائیں گی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ طالبان کابل پر قبضے کے بعد پریشانی اور کنفیوژن کا شکار ہیں اور یہ بھی دوسرے گروہوں کو حکومت میں حصہ دار بنانے کی ایک بڑی وجہ بن رہی ہے۔ 

خیبر پختونخوا کی مالاکنڈ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے استاد مراد علی کے خیال میں طالبان بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کی خاطر بھی وسیع البنیاد حکومت بنانے کی کوشش کریں گے۔ 

سب کی شمولیت کیوں ضروری؟ 

سینیئر تجزیہ کار نجم سیٹھی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ طالبان ہر صورت ایک وسیع البنیاد حکومت بنائیں گے اور اس کے بغیر ان کا لمبے عرصے تک چلنا ممکن نہیں ہوگا۔ 

ان کے خیال میں باقی دنیا کے علاوہ خطے کے ممالک بھی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن اور استحکام قائم رہے، جو ان کے مفادات کے لیے بہت ضروری ہے۔ 

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے علاوہ چین، ایران، اور روس کے بڑے مالی مفادات افغانستان سے وابستہ ہیں، جو اس ملک میں امن برقرار رہنے کی صورت میں ہی پورے ہو سکتے ہیں۔  ’اسی وجہ سے خطے کے یہ ملک بھی افغانستان میں ایک براڈ بیسڈ (وسیع البنیاد) حکومت دیکھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں طالبان کو اشارے بھی دے دیے گئے ہیں۔‘ 

تاہم انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں مستقبل میں مختلف گروہوں کو شامل تو کیا جائے گا، لیکن اس میں حاوی تحریک طالبان افغانستان کے لوگ ہی ہوں گے۔ 

سابق پولیس افسر اور لکھاری سید اختر علی شاہ کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ اس مرتبہ طالبان کو بخوبی احساس ہے کہ وہ دنیا کے بغیر نہیں چل سکیں گے۔ ’انہیں مالی امداد کی ضرورت ہوگی، سفارتی تعلقات بنانا پڑیں گے اور دوسرے کئی عوامل ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا کہ اس لیے طالبان کی مجبوری ہے کہ وہ اپنی خواہش کے برعکس دوسرے گرہوں کو بھی حکومت میں حصہ دیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت کو قانونی حیثیت بھی اسی طرح مل سکتی ہے کہ وہ مختلف لسانی اور مذہبی گروہوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ ’ورنہ تو ان کا قبضہ اور حکومت سب کچھ ہی غیر قانونی اور بغیر کسی جواز کے قرار دیا جا سکتا ہے۔‘ 

اسلامی حکومت 

دنیا میں 50 سے زیادہ اسلامی ممالک ہیں، جن میں حکومتیں چلانے کے لیے بادشاہت، نیم جمہوریت اور خالص جمہوریت جیسے مختلف نظام رائج ہیں۔ 

افغانستان کے نئے حکمران اپنے ملک میں کس قسم کا نظام متعارف کروائیں گے جو اسلام کے پیش کردہ اصولوں پر بھی پورا اترے اور دنیا کے لیے بھی قابل قبول ہو؟ 

تجزیہ کار نجم سیٹھی کے خیال میں طالبان ایران کے طرز کی اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں گے، جس میں ایک شوریٰ یا پارلیمنٹ تو موجود ہے، لیکن کل اختیار ایک شخصیت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ طالبان افغانستان کے 1964 کے آئین کی نوک پلک سنوار کر ملک میں لاگو کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، جس میں بادشاہ کا تصور موجود ہے۔ ’بادشاہ والے اختیارات اس مرکزی شخصیت کو دئیے جائیں گے، جن کی بات حرف آخر ہوگی۔‘ 

مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ مرکزی سطح پر فیصلہ سازی کے اختیارات تحریک طالبان کے رہنما مولوی ہبت اللہ کے پاس ہوں گے اور حکومت ان ہی کے فرمودات کی روشنی میں چلائی جائے گی۔ 

انہوں نے مزید کہا: ’نچلی سطح پر حکومت ہوگی، کابینہ بھی ہوگی اور لویہ جرگہ قائم رکھا جا سکتا ہے، لیکن اہم امور پر فیصلے اسی مرکزی شخصیت کی طرف سے آئیں گے۔‘ 

افغان طالبان کے ایک سینیئر رہنما حمید اللہ ہاشمی نے حال ہی میں برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں افغانستان کا نظام ایک مرکزی شوریٰ چلائے گی، جس کی سربراہی مولوی ہبت اللہ کریں گے۔ 

وحید اللہ ہاشمی نے کہا تھا: ’ابھی تک اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی لیکن مستقبل میں ہو سکتا ہماری ایک شوریٰ ہو۔ شوریٰ کا سربراہ جسے آپ صدر کہتے ہیں اسے ہم رئیس الوزرا کہیں گے یا سربراہِ شوریٰ۔ ہمارے وزرا بھی ہوں گے۔ تمام وزرا کی تعیناتی شوریٰ اور شوریٰ کے سربراہ کی جانب سے ہو گی۔ امیرالمومنین ہمارے لیڈر ہیں۔ وہ صدر کا کردار نہیں ادا کریں گے بلکہ اس سے زیادہ نمایاں کردار ادا کریں گے۔  کوئی شخص ہو گا جو شاید ان کا نائب ہو گا اور شاید صدر کا کردار ادا کرے گا۔ اس کا ہم اعلان کریں گے۔‘

حمید اللہ ہاشمی نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ افغانستان میں جمہوریت نہیں ہوگی بلکہ مستقبل میں ملک کا نظام اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ 

’جیسا کہ ہماری سابق حکومت میں رئیس الوزرا ہوا کرتا تھا، اس حکومت میں بھی اسی طرح ہوگا۔ نظام حکومت بہت واضح ہے جو کہ شرعی نظام کے تحت بلاشبہ اسلامی حکومت ہو گی۔ جمہوری نظام ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ اس کی ہمارے ملک میں جڑیں نہیں۔ ہم اسی پر کام کر رہے ہیں۔ افغانستان میں بھی اور قطر میں بھی ہماری قیادت سب لوگ اسی پر کام کر رہے ہیں۔‘

اکثر تجزیہ کاروں کے خیال میں مستقبل کے افغانستان میں نام نہاد جمہوریت موجود ہو سکتی ہے، جس کا مقصد بیرونی دنیا کو مطمئن کرنا ہوگا۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مشتاق یوسفزئی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان ہر سطح پر صرف اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں اور وہ جمہوریت کو کسی بھی صورت میں افغانستان کے لیے موزوں نہیں گردانتے۔ 

’جمہوریت کے سوال پر اکثر طالبان بشمول رہنما اور نچلے درجے کے جنگجو یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ ساری قربانیاں اسلامی شریعت کے لیے دی ہیں۔‘ 

نجم سیٹھی کے خیال میں مستقبل کے افغانستان میں خواتین، مذہبی اقلیتوں اور معاشرے کے دوسرے کمزور گروہوں کے حقوق کی کسی حد تک پاسداری ہو گی لیکن واقعتاً جمہوریت کا ہونا بعید از قیاس نظر آتا ہے۔ 

محقق اور صحافی رضا رومی کا کہنا تھا کہ دنیا یا خطے کے ممالک کو افغانستان جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا کیونکہ ہر کوئی اپنے مفادات کے لیے فکرمند ہوگا۔ 

’چین، ایران اور روس میں کون سی جمہوریت ہو جو وہ افغانستان میں کسی ایسی حکومت کے قیام پر زور دیں گے، وہ صرف چاہیں گے کہ وہاں امن و استحکام قائم رہے۔‘ 

دنیا طالبان حکومت کو تسلیم کرے گی؟ 

واضح رہے کہ 1996 میں افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی حکومت کو صرف پاکستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے تسلیم کیا تھا۔ 

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ 1996 کے برعکس دنیا کا کوئی ملک بھی کابل میں بننے والی حکومت کو فوراً تسلیم نہیں کرے گا، بلکہ انتظار کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ کس قسم کی حکومت بنتی ہے اور اس میں کون کون شامل ہے اور نظام حکومت کو کیسے چلایا جاتا ہے؟ 

انہوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف رہنما پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو اسی سلسلے میں ٹیلیفون کر رہے ہیں۔ ’وہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ کابل حکومت کو تسلیم کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔‘ 

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ افغانستان میں بننے والی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ عمران خان اور وفاقی کابینہ کرے گی۔

یاد رہے کہ پاکستانی دفترخارجہ بھی واضح کرچکا ہے کہ اسلام آباد ’ویٹ اینڈ سی‘ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے افغان حکومت سے متعلق دنیا میں جو رائے بنتی ہے، اس کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا