کیا واقعی کابل طالبان کے کنٹرول میں ہے؟

جلال آباد میں انتہائی گرمی اور جسم کو کاٹنے والی تیز دھار دھوپ کا جلال دو دن تک برداشت کرنے کے بعد راج دھانی کابل کا رخ کیا۔

جلال آباد میں انتہائی گرمی اور جسم کو کاٹنے والی تیز دھار دھوپ کا جلال دو دن تک برداشت کرنے کے بعد راج دھانی کابل کا رخ کیا۔

جلال آباد کی سطح سمندر سے 575 میٹر سے اٹھ کر ہم دو گنا زیادہ اونچائی یعنی 1791 میٹر کے قدرے بہتر موسم کی امید میں صبح صبح چل نکلے۔ ناشتہ بھی راستے میں کہیں رک کر کرنے کا فیصلہ کیا۔

راستے میں آج کل بند ننگرہار یونیورسٹی کے مین دروازے کا درشن ہوا۔ سڑکوں پر تین رنگی قومی پرچم اب بھی کھمبوں پر لٹک رہے ہیں۔ یہ پرچم اس شہر میں طالبان اور مقامی لوگوں کے درمیان گذشتہ دنوں کشیدگی کا باعث بنا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پرچم کے معاملے پر کوئی واضح جواب نہیں دیا لیکن کہا کہ اس کا اور ملکی آئین کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ یعنی افغانستان کا قومی پرچم طالبان کا سفید کلمے والا ہوگا یا تین رنگوں والا، اس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ تاہم کابل میں اہم ترین سرکاری عمارات پر سفید پرچم ہی لہرا رہا ہے۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Independent Urdu (@indyurdu)

خیر جلال آباد کابل شاہراہ پر ٹریفک کم دیکھی۔ بتایا گیا کہ جب تک حالات مکمل معمول پر نہیں آتے لوگ شہروں کے بیچ سفر سے اجتناب کر رہے ہیں۔ اس تاثر کی توثیق سڑک کنارے واقعے ایک ریستوران کے مالک نے بھی کی۔ ان کا دریائے کابل کے کنارے خالی ’خوش نصیب ریستوران‘ اس کا ثبوت ہے۔ ہمارے علاوہ دو اور لوگ ناشتہ کر رہے تھے۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ افغانستان کو اگر پاکستانیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے ہیں تو انہیں دودھ والی چائے بنانا بھی شروع کرنی ہو گی۔ راستے میں ہر جگہ قہوہ ہی ملتا ہے، یا پھر زیادہ سے زیادہ لسی مل جائے گی، دودھ والی چائے کہیں نہیں ملے گی۔ لہٰذا صبح کے ناشتے میں بھی کابلی پلاؤ اور سیخ کباب لسی کے ساتھ کھا کر چل دیے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں گوشت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال مویشی بڑی تعداد میں پالے جاتے ہیں تو دودھ آخر چائے کے لیے ناپید کیوں؟

یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسی ’خوش نصیب‘ نام کے دو تین مزید ہوٹل بھی راستے میں دیکھے تو بتایا گیا کہ پاکستان میں کوئٹہ کیفے، شنواری ہوٹل اور بٹ کڑاہی کی طرح ’خوش نصیب‘ کو بھی وہی ہر دوسرے ہوٹل کو یہی نام دے کر وہی حال کیا ہے۔

اپنے دودھ کی چائے کا نشہ پورا نہ کرنے کے باوجود کابل کے 152 کلومیٹر طویل سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔ یہ شاہراہ خطرناک ترین مانی جاتی ہے۔ شدت پسندوں کے حملے تو مجاہدین کے دور سے جاری رہے ہیں لیکن جس خطرناک پہلو کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ ٹریفک حادثات ہیں۔ ہمیں بھی ایک گاڑی بیریئر سے ٹکرائی اور دو ٹرالر پہاڑی راستے پر چڑھتے ہوئے بیچ سڑک تکنیکی خرابی کی وجہ سے کھڑے ملے۔ کلاشنکوف سے مسلح مقامی لوگوں اور طالبان نے ٹریفک رواں دواں رکھی ہوئی تھی۔

وار لارڈ کا ’انسانی کتا‘

درونتا اور سروبی ڈیم بھی راستے میں آئے۔ سروبی میں ماضی کی مجاہدین کے دور کی ایک کہانی یاد آ گئی۔ یہ قبل از طالبان کا زمانہ تھا جب ہر مجاہدین کے دور میں چند کلومیٹر پر مقامی کمانڈروں نے سڑک کے بیچ میں چین لگا کر چوکیاں بنائی ہوئی تھیں۔ مقصد ان کا آنے جانے والوں سے بھتہ یا غیرقانونی ٹیکس وصول کرنا تھا۔

سروبی میں بھی ایک کمانڈر نے یہ بھتہ نہ دینے والوں کو اذیت دینے کا انوکھا طریقہ دریافت کیا تھا۔ وہ ایک دیوہیکل شخص کو بطور ’کتا‘ استعمال کرتا تھا۔ مطلب جو پیسے ڈھیلے نہیں کرتا تھا اسے اس کتا نما انسان سے وہ کٹواتا تھا۔ کسی کو کان پر کسی کو کہیں اور۔ اب وہ ’کتا‘ نما انسان تو مر چکا ہے لیکن اطلاعات ہیں کہ وہ کمانڈر اطلاعات زندہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس خبر کی تصدیق کے لیے اس خشک دشت نما علاقے میں سڑک کنارے ایک افغان کی دکان پر رکا۔ دکان کسی ہالی وڈ فلم کی طرح خشک بیابان علاقے میں قائم تھی اور سلمان خان کی تصاویر سی سجی بنیانوں سے لے کر خواتین کے براز تک فروخت کر رہی تھی۔ مالک خان محمد سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے بھی یہ کہانی سنی ہوئی ہے لیکن کبھی خود دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ اس علاقے کی مچھلی بہت مشہور ہے۔

مجھے ماضی میں کوئی 20 سال پہلے سروبی کے علاقے سے گزرنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس وقت کی اس انتہائی دشوار گزار ٹوٹی پھوٹی سڑک پر چار ہڈی توڑ گھنٹے سفر کیا تھا۔ یہ علاقہ اس وقت بھی انتہائی خطرناک مانا جاتا تھا اور نصیحت ہوتی تھی کہ دن کی روشنی میں سفر کرنا چاہیے۔

کابل میں داخل ہوئے تو آسمان پر امریکی جنگی طیارہ پرواز بھرتے دیکھا۔ سنا ہے کابل ایئرپورٹ سے غیرملکیوں اور امریکیوں کا انخلا اب تیز ہو گیا ہے۔ تاہم سینکڑوں افغان اپنے خاندان کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ انتہائی بری حالت میں وہاں بیرون ملک جانے کی امید میں موجود ہیں۔ ایک پاکستانی صحافی سمیرا خان نے بتایا کے انہوں نے ایک عورت پر ترس کھا کر پردے کے لیے ان کو چادر دی۔

جلال میں بازار میں کوئی زیادہ گھوما پھرا نہیں لیکن جتنا گھوم سکا صرف دو بھیک مانگنے والی برقع پوش خواتین نظر آئیں۔ بتایا گیا کہ خواتین کے لیے علیحدہ بازار ہے۔

جلال آباد میں قومی پرچموں تو کابل میں خواتین کی تصاویر والے بل بورڈز دیکھ کر حیرت ہوئی۔ ایک سوچ آئی کہ طالبان یقینا بدل گئے ہیں۔ شہر پر قبضے کے بعد سب سے پہلا کام طالبان کے لیے اگر انہیں اتار پھینکنا مشکل ہوتا تو ان خواتین کے چہروں پر سیاہی ضرور مل دی ہوتی۔ لیکن یہ لکھتے وقت خدشہ ہے کہ طالبان کے دائمی دشمن اور ناقد اسے طالبان کی میری طرف سے پی آر قرار نہ دے دیں۔ لیکن پھر سوچا جو دیکھا وہ لکھ دیا ’جلنے والے جلا کریں۔‘ یہ ہم ہی تھے جب 2001 میں طالبان کی پسپائی کا کھل کر ریڈیو پر اعلان کرتے تھے تو طالبان کے حامیوں سے گالیاں سننے کو ملی تھیں۔ اب بظاہر دوسری طرف کی گالیاں سننے کا وقت ہوا چلا ہے۔

پورے مغربی میڈیا نے کابل کی وہ تصاویر چلائیں جہاں خواتین کے اشتہارات پر سفید پینٹ کر دیا گیا تھا۔ اس سے میرے ذہن میں یہی تاثر تھا کہ شاید سارے شہر میں ان اشتہارات کا یہ حشر نشر ہوا ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ مجھے تو شہر نو میں خواتین کے کپڑوں کے بوتیک کے باہر بھی مغربی لباس سے سجے بت محفوظ دکھائے دیے۔ سوچا شاید میں شہر کے کسی غلط حصے میں آ گیا ہوں۔ لہٰذا جو تبدیلی آئی ہے اسے تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہاں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اگر آنے والے دنوں میں اسے ہٹا دیا جائے۔ منگل کو ہی شہر کی میونسپل اہلکاروں نے دوبارہ کام شروع کیا ہے۔

یہ تو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں طالبان کے تو ابھی اور بہت امتحان باقی ہیں۔ انہیں بہت کچھ ثابت کرنا ہے۔ خواتین ملازمین پر آتے ہی پابندی عائد کر دی ہے۔ وجہ طالبان ان کے ایک کسی محفوظ نظام کی تیاری بتاتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ نظام کے بننے تک انہیں گھروں میں تنخواہ ملتی رہے گی۔ لڑکیوں کے البتہ سکول چل رہے ہیں۔ بازاروں میں باپردہ عورتیں بھی دکھائی دے رہی ہیں  اور ہاں کابل میں پریس کانفرنس میں بھی ایک افغان اور چند دیگر خواتین شرکت کر رہی تھیں۔

شہر میں کسی نے ابھی تک افغان فوج سے ہنگامی مدد کے لیے 1001 نمبر کی تشہیر کے اشتہار بھی نہیں ہٹائے ہیں۔ فوج تو نہیں رہی اشتہار باقی ہے۔

بیرون ملک کچھ دائمی ناقد حلقے ہمیں جان پر کھیل کر افغانستان آنے پر ’آئی ایس پی آر‘ اور پنجاب کے صحافی ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ باضابطہ ویزے کے ساتھ آنے کے باوجود کوئی کابل کی تصویر ٹویٹ کر دیں تو وہ فارغ فوراً اپنے اقوال زریں سے نواز دیتے ہیں۔ بس افسوس ہوتا ہے کہ تمام صحافتی زندگی جھک ماری کہ اب اس طرح کے الزام کا ’بیرون ملک‘ مقیم پاکستان کے غم میں جلنے والے لگا رہے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے ان کی ذہانت پر۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا