جلال آباد کتنا آباد؟

گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو کے ہارون رشید اسلام آباد سے طورخم باڈر کے راستے جلال آباد پہنچے۔ راستے میں انہوں نے کیا دیکھا، جانیے اس رپورٹ میں

افغانستان کے صوبے ننگرہار کی اہمیت اگر کسی اور گروپ یا تنظیم کے لیے ہو یا نہ ہو طالبان کے لیے یقیناً کئی گنا زیادہ ہے۔ ملک کے مشرق میں اہم ترین گزر گاہوں میں سے ایک طورخم واقع ہے۔ یہاں سے کابل اور پشاور کے فاصلے تقریباً ایک جیسے ہیں۔

14 اگست کو صوبائی دارالحکومت جلال آباد شہر طالبان کے قبضے میں آگیا۔ یہاں بھی دیگر مقامات کی طرح انتقال اقتدار پرامن رہا۔ سرکاری حکام نے تمام محکمے طالبان کے حوالے کر دیے تھے اور چوری، لوٹ مار روکنے کے لیے طالبان نے ایک کمیشن قائم کر دیا۔

جس طرح کوئٹہ سے آتے ہوئے قندہار شہر میں داخل ہوتے ہی پہلے بائیں جانب ہوائی اڈہ آتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہاں پشاور سے آتے ہوئے جلال آباد کا ہوائی اڈہ واقعے ہے۔ اگرچہ اس ہوائی اڈے کا استعمال زیادہ تر فوجی اڈے کے طور پر رہا ہے اور یہ امریکیوں کی مشرقی افغانستان میں سب سے بڑی جنگی تنصیب تھی۔

باہر سے گزرتے ہوئے اس اڈے کے اندر 2009 میں گزارے چند دن یاد آ گئے۔ اس ایمبیڈ کے لیے کابل کے بگرام ایئربیس سے ایک سی ون تھرٹی کے ذریعے رات کے تاریکی میں مجھے یہاں لایا گیا تھا۔ ایک فوجی خیمے میں رہنے کی جگہ ملی اور یہاں کے مفت کھانے خصوصاً امریکی محبوب ایپل پائی زبردست تھے۔ یہاں سے مجھے شنوک ہیلی کاپٹر میں کنڑ لے جایا گیا تھا۔

آج یہ فضائی اڈہ باہر سے خالی دکھائی دیا۔ اونچی اونچی چوکیوں میں کوئی نظر نہیں آیا، تاہم سڑک پر حفاظت کے لیے بلاکس اور کانٹے دار تاریں بدستور ماضی کا پتہ دیتی تھیں۔ تقریباً پانچ لاکھ آبادی کا یہ شہر موسم کے لحاظ سے بھی پشاور جیسا ہی ہے۔

شہر میں جگہ جگہ افغانستان کے قومی پرچم آویزاں تھے بلکہ اگر کہا جائے کہ طالبان کے اپنے سفید پرچم کم اور قومی پرچم زیادہ دکھائی دیے تو ہرگز غلط نہیں ہوگا۔

اس سے ایک تو ان لوگوں کا اپنی مرضی کا اظہار تھا کہ جو قومی پرچم برقرار رکھنے کے حق میں ہیں لیکن دوسری جانب طالبان کی برداشت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ماضی میں جب طالبان اقتدار میں آئے تو ہمیشہ صرف اور صرف سفید پرچم دیکھنے کو ملے تھے۔

سوشل میڈیا پر چند روز پہلے پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ قومی پرچم کے حق میں سڑکوں پر نکلنے والوں کے ساتھ یہاں کشیدگی پیدا ہوئی تھی اور فائرنگ سے ایک شخص کی ہلاکت بھی ہوئی لیکن قومی پرچم موجود ہے۔

اگرچہ اس علاقے کے انتہائی خشک پہاڑی اور صحرائی نظارے آپ کو طورخم کے بعد خوش آمدید کہتے ہیں لیکن یہاں کی معروفیت یہاں کی زراعت ہے۔ 

شہر میں داخل ہوئے تو پیلے رکشوں اور گاڑیوں نے مرکزی علاقوں میں ٹریفک کو بلاک کیا ہوا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ سنیچر سے یہاں زندگی معمول پر آچکی ہے اور اس کا اشارہ یہاں کے رش اور کاروبار میں تیزی ہے۔

موبائل کمپنی سے سم کے لیے پہنچے تو آٹھ کاؤنٹرز ہونے کے باوجود صارفین کا رش تھا جو اپنے مسائل کے حل کے لیے آئے ہوئے تھے۔

اس موبائل سروس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہفتے سے مکمل طور پر دفاتر کے کھلنے کے بعد سے دو دن میں صارفین کا انتہائی رش دیکھا گیا ہے۔ اس دفتر میں بھی اکثر تعداد نوجوانوں کی تھی لیکن خاتون ایک بھی نہیں تھی جو کسی بازار میں بھی دکھائی نہیں دیں۔

دور سے بیٹھے میڈیا کی ہیوی ڈوز ہضم کرنے والوں کو یہاں بدامنی اور غیریقینی حالات دکھائی دیتے ہیں لیکن یہاں ایسا کچھ محسوس نہیں ہوا۔ حکومت تبدیل ہوئی ہے، جس میں طالبان ذرائع کے مطابق 50 قیمتی جانیں ضائع بھی ہوئیں لیکن اب حالات نارمل ہیں۔

رات دیر گئے بھی نکل کر شہر کی نبض چیک کرنے کی کوشش کی۔ ایک مقامی شخص نے سیر کروائی اور بتایا کہ کئی اہم سیاسی و سماجی شخصیات کی رہائش گاہوں کے سامنے سے حفاظتی بیریئرز ہٹا کر سڑکیں ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہیں۔

بھارتی کونسل خانہ کافی عرصہ پہلے بند ہو چکا ہے لیکن پاکستانی کھلا ہے۔

شنواری اور مہمند قبائل کی اکثریت والے اس شہر کی طویل روایت ہے کہ اکثر بازار الصبح کھل جاتے ہیں لیکن اذان مغرب کے ساتھ بند ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح کھانے پینے کے ہوٹل بھی کھلے تھے لیکن رش کم تھا۔ سڑکوں پر ایک دو جگہوں پر تین چار کی ٹولیوں میں مسلح طالبان بھی گشت کرتے نظر آئے۔ شہر میں حالات پر اعتماد کا اظہار اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ صراف یا منی چینجرز رات نو بجے بھی کرسی میز لگائے شہر میں بسوں کے اڈے کے گرد بیٹھے گاہکوں کا انتظار کر رہے تھے۔

اس علاقے کی اہم شخصیت روسیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ماضی کے مجاہد کمانڈر مولوی محمد یونس خالص ہیں، جو خوگیانی کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی جماعت حزب اسلامی (خالص) نے روسیوں کے خلاف مزاحمت میں بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔

ان کے برخردار انوار الحق مجاہد سوموار کو پشاور سے ایک بڑے جلوس کی شکل میں جلال آباد آ رہے ہیں۔ انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے شہر میں ایک دو جگہ اشتہار لگے ہیں۔ ان کی اب آمد کا مقصد اپنا سیاسی قد کاٹھ اس موقع پر دکھانا اور بڑھانا ہے۔

تھک ہار کے جلال آباد کی ایک مخیر شخصیت کے ہوٹل میں قیام کیا، جو انہوں نے بنیادی طور پر اپنی رہائش کے طور پر تعمیر کیا تھا۔

اب وہ خود دبئی میں رہتے ہیں لیکن ان کا ذوقِ تعمیر وہی ہے، جو دوستم جیسے گھروں کی ویڈیوز میں آپ نے دیکھا ہی ہے۔ بس وہی ترتعیش سٹائل، تاہم واش روم میں ایک بڑی پاکستانی کمپنی کی فٹنگز دیکھ کر اندازہ ہوا کہ افغانستان پاکستان کے لیے ماضی میں بھی کتنی بڑی منڈی رہا ہے اور اب بھی ہے۔ سیمنٹ سریا کی کھپت تو اربوں روپے میں ہمیشہ رہی ہے۔  


جلال آباد: افغان فورسز کی بکتر بند گاڑی پر طالبان کا جھنڈا

 جلال آباد کی ایک سڑک پر افغان نینشل آرمی کی ایک بکتر بند گاڑی نظر آئی، جو اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہے، جس کا ثبوت اس پر لگا ہوا سفید پرچم ہے۔

 اگرچہ مینٹی ننس کے لحاظ سے اس کا حال کچھ بہت اچھا نہیں لیکن امریکی ساختہ یہ بکتر بند گاڑی کافی مضبوط نظر آتی ہے۔


جلال آباد کے انگور فروش گاہکوں کے منتظر

جلال آباد میں انگور کی فصل بکثرت ہوتی ہے، لیکن طالبان کے کنٹرول کے بعد انگور سمیت دیگر پھل فروخت کرنے والے پریشان ہیں۔ گاہکوں کی کمی کے باععث ان کے کاروبار میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس وقت یہاں انگور 50 افغانی فی کلو کے حساب سے فروخت ہورہے ہیں۔


جلال آباد: ’کسی نے تنگ تو نہیں کیا؟‘ 

ایک قدرے 30 سالہ شخص نے یہ سوال ایک ہاتھ میں کلاشنکوف اٹھائے اور دوسرا ہماری گاڑی کے اگلے دروازے کی کھڑکی پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ لمبے بال اور پکول روایتی ٹوپی پہنے اس طالبان محافظ نے مشرقی صوبے ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد میں داخلے کے ایک مقام پر سڑک کنارے روک کر دریافت کیا۔ نہ کوئی تناؤ نہ کوئی کشیدگی کے آثار۔

اس شخص کے پیچھے کوئی پانچ چھ مزید طالبان کھڑے کبھی ہمیں دیکھتے اور کبھی آپس میں گفتگو کرتے نظر آئے۔ ماضی کے برعکس کسی نے ڈرانے یا دھمکانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ طورخم سے جلال آباد کے راستے میں شہر میں داخل ہوتے وقت آخری طالبان چوکی تھی۔ پھر شہر کا رش اور گہما گہمی۔

اس جگہ تک پہنچنے کے لیے اسلام آباد سے طورخم تک تو چار گھنٹے لگے لیکن بارڈر کے دو سو میٹر کراس کرنے میں بھی اتنا ہی وقت لگا۔ انتہائی گرمی میں پاکستانی امیگریشن کے نوجوان افسر نے کنٹینر میں بنے عارضی دفتر کی کھڑکی سے بڑے غیرپیشہ ورانہ طریقے سے دھتکار دیا۔ ’پاکستانی افغانستان نہیں جاسکتے۔ آپ کو وزارت داخلہ کا اجازت نامہ درکار ہے۔ افغان ویزے کی کوئی اہمیت نہیں۔ مجھے حکم نہیں ہے پاکستانیوں کو جانے دینے کا۔‘

ہم نے باہمی مشورے پر پی آئی اے سے براہ راست کابل کی بجائے سڑک کے راستے حالات کی اصل نبض جاننے کے لیے سفر کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ طورخم پر کچھ دیر کے لیے غلط محسوس کروانے کی پاکستانی حکام نے بھرپور کوشش کی۔

 
کبھی طورخم کراسنگ بہت مختصر سی ہوتی تھی۔ ایک برطانوی دور کی عمارت میں چھوٹے سے دفتر میں امیگریشن کے اہلکار کچھ زیادہ پوچھ گچھ کے بغیر پاسپورٹ پر ٹھپا لگا دیتے تھے۔ یہ نوئے کی دھائی تک کے حال تھے۔ اب ایک وسیع ٹرمینل کی تعمیر جاری ہے۔ ہزاروں افغان اور پاکستان روزانہ یہاں سے کراس کرتے ہیں۔  

کبھی وہاں تعینات چترال سکاوٹس کے نوجوانوں سے مدد کی اپیل کی تو کبھی ناامید ہو کر ان کے قریب لگے کھوکھے میں چلچلاتی دھوپ سے بچنے کی خاطر ایئر کولر کی ایئرکنڈشن محسوس ہوتی ٹھنڈی ہوا اور ان کے پاس ٹھنڈے پانی سے اوسان بحال کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ تمام تعینات سول اہلکار انتہائی بےعزتی کو چھوتی ہوئی بے اعتناعی سے جھڑکتے رہے۔ آخر کار اسلام آباد کے مقتدرہ حکام تک ٹیلی فون کالوں سے مدد ملی اور وزارت داخلہ نے اتوار چھٹی کی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے احکامات جاری کیے اور ہمیں آگے جانے دیا گیا۔

دوبارہ بیگوں کے ساتھ جب سکین مشین سے گزرے کو وہاں تعینات ایک اہلکار نے جیب میں پڑے بٹوے کو پکڑ لیا۔ نکالنے کا حکم دیا اور اپنے ہاتھ میں لے کر اس میں پیسے ٹٹولنے لگا۔ کتنے ڈالر ہیں؟ کتنے پاکستانی روپے لے کر جا رہے ہیں؟ اتنی سختی ماضی میں نہیں دیکھی تھی۔ اہلکار نے کہا آپ ڈالر لے کر نہیں جاسکتے واپس جا کر افغانی میں تبدیل کروا لیں۔ پاکستانی بھی دس ہزار روپے سے زائد لے کر جانے کی  اجازت نہیں۔

دل میں سوچا اتنی کم رقم میں افغانستان میں کسی کا گزارا کیسے ہوگا۔ خیر انتہائی نامناسب ریٹ پر ڈالر تبدیل کیے اور پھر چل پڑے۔ ایک لمبی واک تھی بارڈر کراس کرنے کے لیے جنگلوں کے درمیان۔ قدم قدم پر پاکستانی فوجی کبھی ٹوکن کا پوچھتے، کبھی پولیو کے قطرے پہلے پلاتے اور پھر کارڈ ہاتھ میں تھما دیتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس طویل پیدل راستے کے دوران مقامی بچے سامان اٹھانے کی پیشکش اور انکار پر 50 کلدار یا پاکستانی روپے کی اپیل کرتے اردگرد بھنبناتے رہے۔ آخر میں ایک کرسی پر لمبے بالوں والا طالبان جنگجو اور ان کی اسلامی امارات کے سفید پرچم دکھائی دینے لگے۔ اس کا مطلب تھا افغانستان آ گیا ہے۔ نہ پاکستانی کی جانب جانے والے زیادہ تھے نہ پاکستان سے آنے والے، ہم جیسے چند کے علاوہ کوئی نہیں۔

جنگلے سے نکلے تو ایک دوسرا طالبان مسلح جنگجو بیٹھا دکھائی دیا۔ ایک دو اور غیرمسلح لوگ ان کے ساتھ تھے لیکن بس اتنے ہی دکھائی دیے۔ چوکی پر موجود جنگجو سے پوچھا تو وہ 10 دن پہلے یہاں تعینات ہوئے تھے اور قریب میں 10 دن پرانا ایک ہار بھی لٹک رہا تھا جو ان کے بقول مقامی لوگوں نے انہیں ان کی حکومت آنے کی خوشی میں پہنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔

 

وہاں سے نکلے تو کئی کلومیٹر طویل انگور، ٹماٹر اور دیگر اشیا کے ٹرک پاکستان جانے کے انتظار کرتے دکھائے دیے۔ راستے میں کئی مقامات پر چوکیاں آئیں لیکن ایک طالب کے علاوہ زیادہ تعداد میں جنگجو دکھائی نہ دیے۔

سفر پرسکون رہا اور کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ ایک جگہ پر نوجوان مسلح گارڈ کو گاڑی میں سامان کے چار پانچ بیگ دیکھ کر تشویش ہوئی تو قریبی قلعے سے سینیئر ساتھی کو طلب کیا۔ اس نے مختصر معائنے کے بعد جانے دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا