’جسٹس فائز کا حکم نامہ مفاد عامہ کے تحت، مگر قواعد کو مدنظر نہیں رکھا‘

صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا 20 اگست کا حکم نامہ مفاد عامہ کے تحت دیا گیا لیکن حکم نامے میں سپریم کورٹ کے قواعد کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔

اٹارنی جنرل نے معاملے کے حل کے لیے بینچ کو تجویز دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ  چیف جسٹس کو ماسٹر آف روسٹرز قرار دیا۔(تصویر: اے ایف پی)

سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیا کہ ان کا سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے حکم میں مداخلت کا ارادہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو رکنی بینچ کے حکم سے ایک مشکل سامنے آئی جس کا تدارک ضروری ہے۔

صحافیوں کے حقوق اور ہراساں کیے جانے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے از خود نوٹس پر جائزے کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’اس معاملے میں ادارے پر اعتماد نہ کرنا بھی ایک اہم پہلو ہے۔ ’چیزوں کو تباہ کرنا آسان ہے، لیکن بنتی بہت مشکل سے ہیں۔ اگر کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا تو نظام نہیں چل سکتا۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے 20 اگست کے حکم میں کوالٹی ہے۔ یہ حکم نامہ مفاد عامہ کے تحت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو مدنظر رکھ کر دیا گیا۔ لیکن حکم نامے میں سپریم کورٹ کے قواعد کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم میں نوٹسز جاری کیے گئے۔‘

سماعت میں اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے اٹارنی جنرل ازخود نوٹس کے طریقہ کار اور بینچ کی تشکیل کے صوابدیدی اختیار سے متعلق دلائل دیے۔

اٹارنی جنرل نے آغاز میں کہا کہ ’عدالتی حکم پر اپنی رائے دینے سے پہلے کچھ وضاحت دینا چاہتا ہوں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے ایک بینچ کی مانیٹرنگ دوسرا بینچ نہیں کر سکتا۔‘

خط کا متن سننے کے بعد جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’سب سے اہم سپریم کورٹ کا وقار اور اس کا اتحاد ہے۔‘ جب کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ڈیڑھ سال میں نے فل کورٹ کی سربراہی کی ہے، قائم قام چیف جسٹس عمر، فل کورٹ بیٹھ کر اندازہ ہوا کہ عدالتی کام بلکل رک جاتا ہے اس لیے اگر کوئی مناسب وجہ نہ ہوئی تو یہ کیس دوبارہ دو رکنی بینچ کے سامنے چلا جائے گا۔‘

اٹارنی جنرل نے دوران سماعت ماضی کے مختلف فیصلوں اور احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سال 2005 میں ازخودنوٹس کے ایس او پیز جاری کیے گئے، ایس او پیز کے مطابق بینچ سوموٹو لینے کی سفارش چیف جسٹس کو بھیجے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ چیف جسٹس کا اختیار ہوگا کہ نوٹس کس بینچ کو اور کب مقرر کرنا ہے، سال 2016 میں نیب اختیارات پر بھی بینچ نے ازخودنوٹس کی سفارش کی تھی۔

 جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کے دلائل سُن کر ریمارکس دیے کہ ’جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ دو رکنی بینچ  کی سفارش تھی۔ نوٹس لینے کی سفارش کے بعد تین رکنی بینچ  نے کیس کی سماعت کی تھی۔ تین رکنی بینچ  میں سفارش کرنے والا کوئی جج شامل نہیں تھا۔‘

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمشیہ روایت رہی ہے کہ نوٹسز جاری کرکے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا جاتا رہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بینچ  نے جوڈیشل آرڈر دیا ہے۔ ماضی میں ججز ازخود نوٹس لے کر معاملہ چیف جسٹس کو بھیجتے رہے ہیں۔ کیس کب سنا جانا ہے اور کون سا  بینچ  سنے گا اس کا فیصلہ چیف جسٹس نے کرنا ہوتا ہے۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’رپورٹس یا معلومات طلب کرنا انتظامی معاملہ ہے۔ رپورٹس آنے کے بعد جوڈیشل معاملہ شروع ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر نے بھی ریمارکس دییتے ہوئے کہا کہ مذکورہ بینچ  کے ممبر خود واضح نہیں تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’شاید اس لیے بینچ  نے 184 کی شق تین کے تحت معلومات طلب کیں۔ بینچ  کی تشکیل کے قواعد 1980 میں بنائے گئے اس وقت سوموٹو کا لفظ استعمال نہیں ہوتا تھا۔ آرٹیکل 184 کی شق 3 ایک طاقت ہے جس کو سپریم کورٹ استعمال کرتی ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے دوران دلائل فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’فیض آباد دھرنا ازخودنوٹس میں مروجہ طریقہ کار کی خلاف ورزی ہوئی۔ رجسٹرار آفس کے نوٹ پر دھرنا کیس کو چیف جسٹس نے ازخودنوٹس میں بدلا، چیف جسٹس نے دھرنا کیس اسی بینچ کو بھیجا جس نے نوٹس لیا  تھا۔‘

جسٹس قاضی امین  نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس بینچ کی سوموٹو لینے کی سفارش رد کر سکتے ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’چیف جسٹس کسی جوڈیشل آرڈر سے انکار نہیں کرسکتے لیکن کیس کب اور کس بینچ  میں مقرر کرنا ہے یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ مرضی کے جج کے سامنے کیس لگوانے کا رجحان تباہ کن ہے۔ انصاف ایسی چیز نہیں کہ مرضی کی دوکان سے شاپنگ کی جائے۔ درخواست دائر ہوئے بغیر کوئی بینچ  اس پر ازخود کارروائی نہیں کر سکتا۔ ‘

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ  کو معاملے کے حل کی تجویز دے دی۔

اٹارنی جنرل کی بینچ کو تجاویز:

اٹارنی جنرل نے معاملے کے حل کے لیے بینچ کو تجویز دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ  چیف جسٹس کو ماسٹر آف روسٹرز قرار دیا۔ اٹارنی جنرل نے دو رکنی بینچ  کے حکم نامہ میں ترمیم کی تجویز دے دی۔

تجاویز میں مزید کہا گیا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے 20 اگست کے حکم کو تھوڑا سا بہتر کر دیا جائے تو معاملہ حل ہوجائے گا۔ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے حکم میں معاملہ 26 اگست کو اسی بینچ میں لگانے کے نکتے کو تبدیل کردیا جائے۔ لارجر بینچ  سے پہلے چیف جسٹس دو رکنی بینچ  کو جائزے کے لیے معلومات بھجوائیں۔ دو رکنی بینچ  تعین کرے کہ ازخودنوٹس بنتا ہے یا نہیں۔ ‘

جسٹس قاضی فائز عیسی کا خط

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار اور تعین کے لیے قائم بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ کو خط لکھا اور موقف اپنایا کہ پانچ رکنی لارجر بینچ بنانے سے قبل دو رکنی بینچ کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ آئین پاکستان میں سپریم کورٹ کے مختلف دائرہ اختیار ہائے سماعت درج ہیں۔ سپریم کورٹ کا ایسا کوئی دائرہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے ہی بینچ کے امور کی مانیٹرنگ شروع کردے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ ’پانچ رکنی معزز بینچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں۔ اگر پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے تجاوز ہوگا۔ کوئی بھی شہری معلومات تک رسائی یا اظہار رائے کی آزادی کی بات کر سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’میرے بینچ نے حکومتی حکام کو جو اعتراض کیے ان پر کسی حکومتی فریق نے اعتراض نہیں کیا۔ اگر کوئی اعتراض اٹھایا جاتا تو ان کو سنا جاتا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ جو سرکاری ملازم ہے وہ بلاشبہ خود کو ایک منصف اور آئینی ماہر سمجھتا ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے فوری طور پر نوٹس لیا اور چھ صفحات پر مشتمل نوٹ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔‘

’سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقرر کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ مقرر کرنا جوڈیشل سروس میں موجود افسران کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ حیران کن طور پر عدلیہ نے ڈیپوٹیشن پر آئے ملازمین کو واپس بھیجا لیکن ڈیپوٹیشن ملازم رجسٹرار سپریم کورٹ کام کر رہا ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ اس سے قبل وزیراعظم آفس میں کام کرتے رہے ہیں، رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکومت سے ادھار کے طور پر لیا گیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو لانے کا مقصد حکومتی دلچسپی کے مقدمات فوری فکس کرنا تھا۔ ‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکومت سے ادھار مانگ کر لانے کا مقصد حکومت کے ناپسندیدہ کیسز کو دبا کر رکھنا تھا۔ ایسے مقدمات کی ایک تفصیلی فہرست موجود ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کا میرے بینچ کے خلاف نوٹ لکھنا حکومتی مفاد اور اپنے سابقہ ساتھیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھا کہ ’ایک بینچ کا دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ کرنا غیرآئینی ہے۔ ہر چیف جسٹس، قائم مقام چیف جسٹس یا جج حلف کے تحت اپنے امور آئین کے تحت سرانجام دینے کا پابند ہے۔ اگر ایک بینچ دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ شروع کردے تو اس سے نظام عدل زمین بوس ہو جائے گا۔ ماضی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران بینچ میں موجود اپنے ہی جج کو نکال کر نیا بینچ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بعد میں الگ حکم نامہ جاری کیا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس معاملے پر تاحال غور نہیں کیا گیا۔‘

پندرہ صفحات پر مشتمل خط میں مزید لکھا گیا کہ ’ماضی کے ایسے عدالتی آرڈر پر توجہ نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ چیف جسٹس کی خواہش ہے کہ وہ بے لگام اور بلا روک ٹوک اختیارات کو اپنے پاس رکھیں۔ چیف جسٹس یہ تعین نہیں کر سکتے کہ کون سا کیس کس بینچ میں مقرر ہوگا۔ بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ میں نے کبھی مجوزہ کازلسٹ جاری نہیں کی۔ ازخودنوٹس کے اختیار سے متعلق نو رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔ نو رکنی بینچ فیصلے میں قرار دے چکا ہے کہ آرٹیکل 184(3) غیر معمولی دائرہ اختیار رکھتا ہے۔ موجودہ پانچ رکنی بینچ نو رکنی کا فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتا۔ ‘

انہوں نے لکھا کہ ’ایک مرتبہ نامعلوم نمبر سے وصول ہونے والے وٹس ایپ میسیج پر ازخودنوٹس لیا گیا۔ وٹس ایپ ازخودنوٹس کی وجہ سے قومی خزانے کو 100 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ جب اس فیصلے پر نظر ثانی ہوئی تو مرکزی بینچ میں شامل جج جسٹس اعجازالاحسن نے اضافی نوٹ لکھ کر نظر ثانی سے اتفاق کیا۔ ریکوڈک کیس میں پاکستان کو عالمی مقدمہ بازی کا سامنا کرنا پڑا اور 6.4 ارب ڈالر کا جرمانے عائد ہوا، متن عدلیہ کے منقسم ہونے پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھا کہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا عدلیہ میں تقسیم ہے۔‘

’مجھے  فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے عوامی تاثر کی بنیاد پر طنز کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعظم ترقیاتی فنڈز کیس میں لارجر بینچ بنا کر جسٹس مقبول باقر کو بینچ سے الگ کر دیا گیا۔ اس کیس میں جلدبازی میں غیر آئینی حکم نامہ جاری کیا گیا اور چیف جسٹس بینچ سے اٹھ کر چلے گئے۔ مجھے اس فیصلے میں وزیراعظم کے خلاف مقدمہ سننے سے ہی روک دیا گیا۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’میرے معزز ساتھی ججز نے مجھے اپنی بات کہنے کا موقع نہیں دیا۔ میرے ساتھی ججز سے اب بھی اچھے تعلقات برقرار ہیں۔ اس عوامی تاثر سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو ٹارگٹ نہیں کیا جارہا۔ اس طرح کے برتاؤ کے باوجود میں نے اپنے ساتھی ججوں سے بہتر برتاؤ روا رکھا ہے۔ اگر میرے ساتھی ججز کو کوئی اعتراض تھا تو وہ اس معاملے کو بینچ نمبر دو میں لے کر آتے۔‘

متن میں انہوں نے مزید لکھا کہ ’حیران کن طور پر یہ معاملہ اتنا خفیہ رکھا گیا کہ مجھے سپریم کورٹ کی بجائے پریس سے معلوم ہوا۔ 24 اگست کے حکم نامہ میں کہا گیا کہ ہم اصل سٹیک ہولڈرز کو سننا چاہتے ہیں۔ پاکستان کا ہر شہری آزادی صحافت کے لیے سٹیک ہولڈر ہے۔‘

واضح رہے کہ بیس اگست کو صحافیوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومتی اداروں سے رپورٹس طلب کی تھیں جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے حکم معطل کرتے ہوئے نیا بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان