خواتین اپنے بچاؤ کے لیے یہ چار طریقے اپنا سکتی ہیں

پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے دفاع کے لیے یہ اقدامات کر سکتی ہیں۔

(پکسا بے)

جامعہ کراچی کی طالبہ 20 سالہ وانیہ پچھلے ایک سال سے کرونا وبا کے باعث آن لائن کلاسز لے رہی ہیں۔ ان کے دوست تو گھر پر رہ رہ کر تنگ آگئے ہیں مگر وہ خود مطمئن ہیں کیونکہ انہیں اب پبلک ٹرانسپورٹ سے یونیورسٹی نہیں آنا جانا پڑتا۔

وانیہ کو اب اس آدمی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا جو اکثر یونیورسٹی سے آتے جاتے ان کا پیچھا کرتا تھا۔

وانیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب سے کلاسز آن لائن ہوئی ہیں میں یونیورسٹی بہت کم گئی ہوں اور میرا اس آدمی سے سامنا نہیں ہوا، مگر مجھے اب بھی ڈر لگتا ہے کہ یونیورسٹی دوبارہ کھل گئی تو وہ پھر آجائے گا۔

’پہلی بار وہ میرے بس سٹاپ کے بعد آنے والے کسی سٹاپ سے بس میں چڑھا تھا۔ وہ بس میں مجھے مسلسل گھورتا رہا اور میرے ساتھ یونیورسٹی کے سٹاپ پر اترا، میرا یونیورسٹی تک پیچھا کیا مگر اندر نہیں آیا۔‘

انہوں نے کہا ’ایسا کئی بار ہوا۔ ایک دن وہ بس میں چڑھا اور مجھے چھوتا ہوا اور مسکراتا ہوا اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھا۔ وہ دن میرے صبر کا امتحان تھا مگر مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اسے سب کے سامنے کال آؤٹ کروں۔ میں چاہے کچھ بھی کرلوں مجھے نہیں لگتا کہ وہ کافی ہوگا۔‘

وانیہ کی طرح کئی لڑکیاں روزانہ کی بنیاد پر ذہنی و جسمانی ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں۔

نیشنل سینٹرفار بایوٹیکنالاجی انفارمیشن NCBI کے جرنل میں شائع والی ایک تحقیق کے مطابق کیریئر کی شروعات میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا خواتین میں طویل المیعاد ڈپریشن کا سبب بن سکتا ہے۔

خواتین اپنے بچاؤ کے لیے کیا استعمال کرسکتی ہیں؟

25 سال سے سکیورٹی اور رسک کے شعبے سے وابستہ نوربرٹ المیڈا نے بتایا کہ دنیا بھر میں خواتین اپنے بچاؤ کے لیے سیلف ڈیفینس کی تکنیک کے علاوہ کچھ آلات بھی استعمال کرتی ہیں۔

’ایسے واقعات جن میں چور اسلحے کے زور پر آپ کا سامان چھینے آئے، بہتر ہے کہ کوئی مزاحمت نہ کی جائے کیوں کہ اب اکثر واقعات میں ملزم کے لیے گولی چلا دینا سب سے آسان حل ہوتا ہے اور اس سے آپ کا یا آپ کے ساتھ موجود لوگوں کی جان کا نقصان ہوسکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا مگر جنسی ہراسانی، پبلک ہراسانی اور گھریلو تشدد کی صورت میں یا پھر ایسی کوئی بھی صورت حال جس میں خواتین خود بچاؤ کے ذریعے اپنی جان و عزت کی حفاظت کرسکتی ہیں۔

’انہیں سیلف ڈیفنس کی ٹیکنیکس ضرور سیکھنی چاہییں اور حفاظتی آلات کا استعمال کرنا چاہیے۔‘

نوربرٹ نے مزید بتایا کہ خواتین اپنی حفاظت کے لیے پیپر سپرے، ٹیزرز، سٹن گنز، پرسنل الارم، الٹراسونک ڈاگ رپیلینٹ اور مختلف ٹریکنگ ڈیوائسز استعمال کرسکتی ہیں۔

پیپر سپرے

پیپر سپرے ایک ایروسول سپرے ہے جس میں ایک تیز نوعیت کا کیمیکل Capsaicin شامل ہوتا ہے۔

جب بھی یہ سپرے کسی کی آنکھوں پر کیا جائے تو اس سے آنکھوں میں جلن، تکلیف اور آنسو آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

نوربرٹ کے مطابق لوگ اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ کالی مرچ کے پانی کا سپرے ہے اور کئی لوگ پاکستان میں یہی کہہ کر اسے بیچ بھی رہے ہیں جبکہ یہ سچ نہیں۔

’پیپر سپرے میں سب سے اہم کیمیل Capsaicin ہوتا ہے جو قدرتی طور پر لال مرچوں میں بھی موجود ہوتا ہے مگر ایک پیپر سپرے میں اس کی تاثیر لال مرچوں کے مقابلے میں کئی گناہ ذیادہ ہوتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پیپر سپرے کا استعمال کرتے وقت اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ اس کی سمت حملہ کرنے والے کے چہرے کی طرف ہو۔ یہ خیال رکھیں کہ ہوا کی سمت بھی اسی کی جناب ہو۔

’پیپر سپرے اس (حملہ آور) کی آنکوں میں کریں۔ اس کی آنکھوں میں فوری جلن سے آپ کو موقعے سے نکلنے کا وقت مل جائے گا۔ آپ حملہ آور سے دور کھڑے ہو کر بھی یہ سپرے کرسکتی ہیں اور اسے اپنے بیگ یا گاڑی میں ایسی جگہ رکھیں جہاں یہ فوری میسر ہو۔‘

ٹیزرز اور سٹن گنز

ٹیزرز یعنی بجلی کا شاک دینے والی ایک چھوٹی سی مشین جو کہ اکثر قانون نافذ کرنے والے ادارے استعمال کرتے ہیں اور پاکستان میں کچھ ہتھیار کی دکانون اور آن لائن سٹورز پر میسر بھی ہے۔

اس کی دو اقسام ہیں ایک وہ جس میں ڈیوائس پر کانٹے ہوتے ہیں یعنی ’الیکٹروڈز‘۔ اس کا استعمال کرنے کے لیے حملہ آور سے قریب ہونا ضروری ہے۔

یہ جسم کے کسی بھی حصے میں لگا کر بجلی کا شاک دیا جاسکتا ہے۔ مگر نوربرٹ کے مطابق حملہ آور پر یہ استعمال کرنے کے لیے اس کے قریب ہونا ضروری ہے جو کہ خواتین کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔

دوسری قسم ہے ان ٹیزرز یا سٹن گنز کی جو 10 سے 15 فٹ کے فاصلے سے استعمال کی جاسکتی ہے مگر لازمی ہے کہ اس کا نشانہ حملہ آور کی گردن یا کمر کی جانب ہو۔ یہ قسم اتنی آسانی سے عام لوگوں کے لیے میسر نہیں۔

نوربرٹ کے مطبق ’پیپز سپرے ٹیزرز کے برعکس زیادہ مفید ہے۔ ٹیزرکے استعمال کے لیے آپ کو حملہ آور کے قریب آنا ہوگا جبکہ پیپر سپرے آپ کم از کم ایک فٹ اور ذیادہ سے ذیادہ 10 فٹ کی دوری سے استعمال کرسکتے ہیں۔ سپرے کی دھار جتنی تیز ہو اتنا بہتر ہے۔‘

پرسنل الارمز اور ٹریکرز

نوربرٹ کہتے ہیں کہ خواتین اپنی حفاظت کے لیے دو طرح کے الارمز استعمال کرسکتی ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس میں گاڑی کے ہارن یا گھر کی بیل کی طرح بٹن دباتے ہیں ایک تیز آواز نکلتی ہے۔ اس سے آس پاس کے لوگ الرٹ ہوجاتے ہیں۔

دوسری قسم کے حوالے سے نوربرٹ کا کہنا تھا کہ یہ الارمز ٹریکرز کی مانند ہیں۔ ان کی مدد سے فوری طور پر کسی اور مقام پر موجود شخص کو آگاہ کیا جاسکتا ہے۔

’دونوں طرح کے الارمز کو مختلف اشکال میں استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے کہ لپ سٹک، گھڑی، پین، کی چین وغیرہ۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا الارم ہر وقت پوری طرح چارج ہو۔ الارم کی پہلی قسم کی صورت میں آپ بھی تیز آواز کا شکار ہوسکتے ہیں صرف حملہ آور نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ خود کو الرٹ رکھیں۔

’یہ زیادہ آسانی سے میسر ہے۔ دوسری قسم اور دیگر ٹریکنگ ڈیوائسز پاکستان میں اتنی آسانی سے نہیں ملتیں مگر ان کا فائدہ ہے کہ یہ آپ کو ایسی صورت میں اکیلا نہیں رہنے دیتیں۔‘

آگ آگ چلائیں اور کاٹیں

نوربرٹ کے مطابق ’کئی مواقع پر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس اپنے بچاؤ کے لیے کہ آلات موجود ہوں اور جب آپ اسے استعمال کریں تو حملہ آور وہ آپ سے چھین لے۔

’ہوسکتا ہے کہ آپ کا بیگ چھن جائے یا بیگ سے نکالنے کا موقع نہ ملے ایسی صورت میں بغیر آلات کے بھی خود کو بچانے کا طریقہ آنا چاہیے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ایسی صورت میں زور سے آگ آگ چلائیں کیوں کہ ہمارے بچاؤ کی پکار کو اکثر لوگ بہت سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

’آگ پکارنے سے لوگوں کی بہتر توجہ ملے گی۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہے اور آپ کو پکڑا جا رہا ہے اور آپ یہ سمجھتی ہیں کہ آپ میں اتنی جسمانی قوت ہے کہ آپ خود کو چھڑوا سکتی ہیں تو آپ حملہ آور کو زور سے کاٹیں، جہاں بھی ہوسکے۔

’کاٹنے سے بہت جلدی بہت تیز جسم میں تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور یہ ایک کارآمد طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ آپ حملہ آور کی آنکھوں میں انگلیاں مارسکتی ہیں اور اس کی ٹانگوں کے بیچ میں کک کرسکتی ہیں۔ اس طرح سے حملہ آور کی آپ پر گرفت ڈھیلی ہوجائے گی۔‘

نوربرٹ کے کے مطابق ہر صورت مختلف ہوتی ہے اس لیے ضروری نہیں کہ ایک نسخہ ہر بار کام آئے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ موجودہ صورت حال میں الرٹ رہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق میں مزید کہا گیا کہ بہت سی خواتین میں یہ علامات وقت کے ساتھ ساتھ سماجی سپورٹ اور خوداعتمادی سے ختم ہو جاتی ہیں اور بہت سی خواتین مکمل طور پر ٹھیک ہو جاتی ہیں اور زندگی میں آگے بڑھ جاتی ہیں۔

دوسروں جانب ایسی خواتین بھی ہیں جنہیں اس قدر تکلیف ہوتی ہے کہ اس سے ان کی پڑھائی، کام اور زندگی میں اثر انداز ہوتی ہے۔ اس تکلیف کی تشخیص کے لیے کئی علامات درکار ہوتی ہیں لیکن تب تک یہPTSD یعنی پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر بھی بن سکتا ہے۔

ریسرچ گیٹ میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ آرٹیکل ’میں اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں‘ کے مطابق سیلف ڈیفنس سیکھنے یا اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہونے سے خواتین کی زندگیوں پر کافی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

یہ خواتین کو مختلف حالات میں اپنے بچاؤ کے لیے مختلف آپشنز سکھاتا ہے۔ یہ حملوں کے ابتدا میں ہی پتہ لگانے، روک تھام اور رکاوٹ کے ساتھ ساتھ جسمانی ردعمل پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

یہ ضروری ہے کیوں کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے حملوں میں خواتین مزاحمت کرنے یا کسی بھی قسم کا رسپانس دینے میں تاخیر اس لیے کرتی ہیں کیونکہ کہ جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ ان کے لیے ناقابل یقین ہوتا ہے اور انہیں سمجھ نہیں آتا کہ ایسی صورت میں وہ کیا کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین