ماؤں کو تحفے میں کیا دیتے ہیں؟

کیا ماؤں کو تحفے میں برتن اور مشینیں ہی چاہیے ہوتی ہیں؟ کیا باورچی خانے سے باہر ان کی زندگی نہیں ہوتی؟

ایک کا سویٹر بُن دیتی ہیں تو دوسرا کہہ دیتا ہے میرا نہیں بُنا۔ پھر انہیں اس کے لیے سویٹر بُننا پڑتا ہے(پکسابے)

آج میری امی کی سالگرہ ہے۔ سالگرہ پر تحفہ دینا رواج ہے لیکن ماؤں کو تحفے میں کیا دیا جاتا ہے؟

میں پچھلے کچھ دن سے یہی سوچ رہی تھی۔ دوستوں سے مشورہ مانگا تو کسی نے کہا سوٹ دے دو۔ کسی نے کہا شال دے دو۔ کسی نے کہا برتن یا کچن میں استعمال ہونے والی کوئی مشین دے دو۔

میں اپنی امی کو ان کی سالگرہ پر ایسے ہی تحفے دیتی رہی ہوں۔ اچھا سا سوٹ خریدا اور پکڑا دیا۔ چین سے واپس جانا تھا سب کے لیے طرح طرح کی چیزیں لیں۔ امی کی باری آئی تو ذہن میں چوپر، ٹی سیٹ اور ویکیوم کلینر ہی آئے۔ اٹھا لیے۔

آج سوچ رہی ہوں تو عجیب لگ رہا ہے۔

کیا ماؤں کو تحفے میں برتن اور مشینیں ہی چاہیے ہوتی ہیں؟ کیا باورچی خانے سے باہر ان کی زندگی نہیں ہوتی؟

جو برتن انہیں ہی دھونے پڑتے ہیں انہیں بطور تحفہ پا کر وہ کیا خوش ہوتی ہوں گی؟ تحفہ کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے جس کی انسان کو ضرورت ہو، چاہ ہو، ایسی چیز جسے وصول کرکے اسے آپ کی اپنے لیے محبت اور پروا کا احساس ہو۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماؤں کو بس ماں کے اینگل سے ہی دیکھتے ہیں۔ وہ بھی خود کو بس ماں ہی سمجھتی ہیں۔ جس دن پہلی اولاد پیدا ہو، اپنے دل سے ہر خواہش نکال کر باہر پھینک دیتی ہیں۔ اس کے بعد کی زندگی وہ بس اپنے بچوں کے لیے جیتی ہیں۔ میری امی بھی ایسی ہی ہیں۔ ان کے لیے میں کیا تحفہ لے سکتی تھی۔

ہم کسی کو تحفہ دیتے ہوئے اپنی جیب کے علاوہ دوسرے کی پسند ناپسند کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ ماؤں کے لیے تو پوری جیب حاضر ہوتی ہے لیکن اس سے خریدا کیا جائے؟

کچھ بھی خریدیں گے وہ آگے سے ’اس کی کیا ضرورت تھی‘ کہہ دیں گی۔ اندر سے خوش بھی ہوں گی۔ سہیلیوں کو فخریہ دکھائیں گی۔ خاندان میں جہاں جہاں بات ہوتی ہے وہاں فون کرکے بتائیں گی لیکن ساتھ ہی آپ کو کہہ دیں گی کہ آئندہ فضول خرچی مت کرنا۔

ایسی ماؤں کے لیے تحفہ خریدنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ یہ کبھی اپنی پسند ناپسند دوسروں کو پتہ نہیں لگنے دیتیں۔ میری امی کو ہی لے لیں۔ فریج میں گندھے ہوئے آٹے کا باؤل پڑا ہے۔ پراٹھا بنانے کے لیے دو بیٹیاں موجود ہیں۔ پھر بھی کہیں گی کہ رات کی روٹی گرم کر کے دے دو۔ جانے رات کی بچی روٹی ماؤں کو کیوں پسند ہوتی ہیں۔

ہر سیزن سے پہلے خریداری کا پوچھ لو تو کہہ دیں گی میرے پاس بہت کپڑے پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ تو سلوائے بھی نہیں ہیں۔ تم اپنا دیکھو۔

بہت سے لوگ اپنی ماؤں کو سونے کی کوئی چیز بھی بنوا کر تحفے میں دے دیتے ہیں۔ جس عورت کا شوہر سنار ہو اسے اس کے بچے سونا بھی تحفے میں نہیں دے سکتے۔ دینا بھی ہو تو ابا جی سے ہی لینا پڑے گا اور وہاں میری جان نکل جاتی ہے۔

روایتی ماؤں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی پسند ناپسند کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتی۔ ان کے اپنے بچوں کو بھی نہیں۔ مجھ سے پوچھ لیں۔

میری امی کا پسندیدہ رنگ کیا ہے۔۔۔ مجھے نہیں پتہ۔

انہیں پھول کون سے پسند ہیں۔۔۔میں نہیں جانتی۔ ان کے لیے ہم کبھی پھول لائے ہی نہیں۔ کسے دھیان رہتا ہے کہ دفتر سے واپسی پر پھول فروش کے پاس رُک کر ماں کے لیے پھول لے۔ ہمارے باغیچے میں موتیے کا پودہ لگا ہوا تھا۔ اکثر اس کی کلیاں اپنی بالیوں میں پرو لیا کرتی تھیں۔ جو چیز مہیا ہو وہ پسند بھی ہو، یہ ضروری تو نہیں۔

ان کے شوق کیا ہے۔۔۔سویٹر بُننا؟ ایک کا سویٹر بُن دیتی ہیں تو دوسرا کہہ دیتا ہے میرا نہیں بُنا۔ پھر انہیں اس کے لیے سویٹر بُننا پڑتا ہے۔ کیا یہ بُنائی شوق میں شمار کی جا سکتی ہے؟ یہاں یاد آیا کہ میرے لیے انہوں نے آج تک سویٹر نہیں بُنا۔

ان پر سے گھر کی ذمہ داری ہٹا دی جائے تو وہ کیا کرنا چاہیں گی۔۔۔ نہ، میں یہ بھی نہیں جانتی۔ حالانکہ میں اپنی امی کے کافی قریب ہوں۔

ان کی کوئی خواہش جو وہ پورا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔مجھے یہ بھی نہیں پتہ۔

اتنا جانتی ہوں کہ انہیں پڑھنے کا شوق ہے۔ ڈائجسٹ، اخبار، رسالے، سفر نامے، ادب، میرے بلاگ کے علاوہ ہر چیز جو گھر میں موجود ہو پڑھ لیتی ہیں۔

اسی لیے ایک دوست کا مشورہ مانتے ہوئے ان کے لیے کچھ کتابیں آرڈر کروا دیں۔ نظر کا چشمہ پچھلے ماہ ہی بنا ہے۔ آرام سے کتابیں پڑھ لیں گی۔ پھر شاید اپنی مرضی سے خرید بھی لیا کریں گی۔

انہوں نے کبھی اپنے لیے کتاب بھی نہیں خریدی۔ کوئی خرید لایا اور ان کے کمرے میں چھوڑ دی تو وہ ان کے ہاتھ میں نظر آ جاتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ سال پہلے ایک صاحب نے مجھے ممتاز مفتی صاحب کی لبیک بھجوائی تھی۔ میں یونیورسٹی میں پڑھ چکی تھی۔ دوبارہ کیا پڑھتی۔ ان کے کمرے میں لا کر رکھ دی۔ اس بات کو ہفتہ گزر گیا۔

ایک دن دفتر سے گھر آئی تو ان کے پاس ان کی ایک سہیلی بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں سلام دعا کر کے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ لبیک کا لفظ کان میں پڑا تو دھیان دیا۔ وہ اپنی دوست کو کتاب کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ انہیں جاتے ہوئے کتاب بھی تھما دی کہ اب آپ پڑھیں۔

پس، امید ہے کہ انہیں یہ تحفہ پسند آئے گا۔ داماد کا تحفہ بھی دیا جا سکتا تھا لیکن وہ مجھے بہت مہنگا پڑ جاتا سو کتابیں ہی ٹھیک لگیں۔

انہیں سفر کا بھی شوق ہے۔ یہ مجھے ان کے چین کے دورے پر پتہ چلا۔ جس طرح انہوں نے یہاں اپنے 18 دن گزارے، جس شوق سے ساری جگہیں دیکھیں، کھانے کھائے، لوگوں سے بات چیت کرنے کی کوشش کی، اس نے مجھے حیران کر دیا تھا۔

آپ یہ بھی نہ سمجھیں کہ میری امی سیدھی سی، معصوم سی، ’پتر، اے کی ہوندا اے؟‘ والی ماں ہیں۔ وہ پارٹی پرسن ہیں۔ جہاں جائیں وہاں محفل جم جاتی ہے اور اس محفل میں سب سے اونچا قہقہہ ان ہی کا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ ماں ہیں تو بہت سی چیزیں میں ماں کا روایتی ماڈل بن جاتی ہیں۔

زندگی رہی اور کرونا نہ رہا تو انہیں پھر سے سفر پر لے جاؤں گی۔ یہ میری اس وقت کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ یقیناً ان کی بھی ہو گی۔ پر کہیں گی نہیں۔ ماں جو ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ